گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی آئے لیکن ہزاروں اپنے اپنے وطن واپس بھی لوٹ گئے۔ زیادہ تر غیر ملکی رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے گئے تاہم پینتالیس ہزار غیر ملکیوں کو جبراﹰ بھی واپس بھیجا گیا۔
اشتہار
جرمنی سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری گزشتہ کئی دنوں سے جرمن میڈیا میں زیر بحث ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد اس برس مئی کے آخر تک ایک سو چھ افغان مہاجرین کو جرمنی سے افغانستان واپس بھیجا گیا۔
لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی سے جبری ملک بدری کا سب سے زیادہ سامنا البانیا اور کوسووو سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو کرنا پڑا۔
ملک بدری یا رضاکارانہ وطن واپسی ایک مشکل موضوع ہے، جرمنی میں موجود تارکین وطن اس پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ لیکن بہتر معاش کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے اکثر تارکین وطن پناہ کے فیصلوں پر طویل انتظار، جرمن زبان سے عدم واقفیت اور روزگار کے مواقع نہ ملنے کے بعد مایوس ہو کر وطن لوٹنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والا محمد اجمیر نامی تارک وطن بھی ایسے ہی حالات سے مایوس ہو کر رضاکارانہ طور پر اپنے وطن لوٹ جانا چاہتا ہے۔ جرمنی پہنچنے تک اس کے آٹھ ہزار یورو خرچ ہوئے تھے۔ اجمیر کا کہنا ہے، ’’میرا خیال تھا کہ مجھے یہاں بہتر روزگار کے حصول کا موقع ملے گا۔‘‘ لیکن اسے جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وطن میں اپنی ماں کی طبیعت خراب ہونے کے بعد اب وہ واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
سن 2016 کے بعد سے جرمن حکومت تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ پناہ کے مسترد درخواست گزار تارکین وطن اپنے آبائی ممالک کی جانب لوٹنے کے لیے جرمن حکومت سے مالی معاونت لے سکتے ہیں۔ رضاکارانہ واپسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے بھی ممکن ہے۔ لیکن اگر سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے باوجود پناہ گزین اپنے وطن لوٹنے کے لیے تیار نہ ہوں تو ایسی صورت میں جبری ملک بدری ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
رضاکارانہ وطن واپسی کے لیے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے تعاون سے شروع کیا گیا REAG/GARP نامی پروگرام سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی میں مقیم کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے تارک وطن کو سفری اخراجات کے علاوہ کچھ مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ابتدائی مالی معاونت کتنی دی جائے گی، اس کا انحصار بھی تارکین وطن کی قومیت پر ہوتا ہے۔ مثلاﹰ افغان شہریوں کو وطن واپسی پر ابتدائی طور پر پانچ سو یورو دیے جاتے ہیں، جب کہ مصری شہریوں کو تین سو یورو ملتے ہیں۔
سن 2015 میں پینتیس ہزار، جب کہ سن 2016 میں پینتالیس ہزار غیر ملکی اس اسکیم کے ذریعے اپنے ملکوں کی جانب رضاکارانہ طور پر لوٹ گئے تھے۔ اب تک رضاکارانہ واپسی پروگرام کے تحت بلقان کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے قریب اٹھائیس ہزار شہری واپس لوٹے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تین ہزار مہاجرین نے بھی رضاکارانہ واپسی کی اس اسکیم سے استفادہ کیا۔
رضاکارانہ واپسی کا نیا پروگرام
رواں برس جنوری کے مہینے سے جرمن حکومت نے رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اس پروگرام کے تحت اگر تارکین وطن پناہ کی اپنی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کا فیصلہ کریں تو جرمن حکومت انہیں بارہ سو یورو تک کی ابتدائی مالی معاونت فراہم کرے گی۔
اگر تارک وطن کی پناہ کی درخواست پر ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے درخواست مسترد کر دی گئی ہو، اور درخواست گزار اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بجائے رضاکارانہ واپسی کا فیصلہ کر لے تو اسے آٹھ سو یورو مالی معاونت ملے گی۔ وفاقی جرمن حکومت نے اس پروگرام کے لیے چالیس ملین یورو مختص کر رکھے ہیں۔
ڈبلن اصول کے تحت دیگر یورپی ممالک کی جانب ملک بدری
ڈبلن قانون کے تحت غیر ملکی شہری یورپی یونین کے اُسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس کے راستے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ جرمنی میں مقیم ہزاروں تارکین وطن کو اسی قانون کے تحت یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک بھیج دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس جرمنی سے ملک بدر کر کے یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک میں بھیج دیے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ رہی تھی۔ اس سے گزشتہ برس، یعنی سن 2015 میں بھی قریب اتنے ہی غیر ملکیوں کو ڈبلن قانون کے تحت ملک بدر کیا گیا تھا۔