جرمنی ميں سابقہ نازی دور کے ممنوعہ نشانات والی بيئر کی فروخت پر حکام نے تفتيش شروع کر دی ہے۔ البتہ ايک مقامی سياستدان کا کہنا ہے کہ زيادہ پريشان کن پيش رفت يہ ہے کہ متنازعہ ہونے کے باوجود یہ بيئر کس قدر مقبول ہے۔
اشتہار
مشرقی جرمن رياست سيکسنی انہالٹ کے ايک چھوٹے سے شہر باڈ بيبرا ميں ايک مقامی دکاندار کے خلاف تفتيش جاری ہے۔ متعلقہ شخص پر الزام ہے کہ اس نے اپنی دکان پر جو بيئر فروخت اور ذخيرہ کی، اس پر 'جرمن رائش برُو‘ کا نام اور ممنوعہ نشانات درج ہیں۔ يہ برانڈ ايک معروف نيو نازی کی ملکيت ہے۔ واضح رہے کہ جرمنی ميں نازی دور کے نشانات وغيرہ کی عوامی سطح پر نمائش، فروخت يا کسی بھی طرح سے ان کی تشہير ممنوع ہے۔
دريں اثناء سيکسنی انہالٹ کی پڑوسی رياست تُھورنگيا کے حکام نے ايک ٹوئيٹ ميں کہا ہے کہ مذکورہ بيئر پر درج 'رائش ايگل‘ اور کراس کا نشان، دونوں ہی غير آئينی نہيں ہيں اور اس ليے ان پر پابندی لاگو نہيں ہوتی۔
'جرمن رائش برُو‘ برانڈ سابق نيو نازی سياستدان ٹومی فرينک کا ہے۔ انہوں نے اپنی اس بيئر کی فروخت اسی سال شروع کی۔ فرينک انٹرنيٹ پر بيئر کے علاوہ دیگر ايسا مواد فروخت بھی کرتے ہيں، جو انتہائی دائيں بازو کے حلقوں ميں پسند کيا جاتا ہے۔ فرينک کلوسٹر ويسرا کے ديہات ميں ايک بار يا شراب خانے کے بھی مالک ہيں، جہاں اکثر نيوز نازيوں کی تقاريب منقعد ہوتی ہيں۔ وہ 2014ء ميں علاقائی انتخابات ميں انتہائی دائيں بازو کی نيشنل ڈيموکريٹک پارٹی کے اميدار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے۔ فرينک کافی عرصے سے خفيہ ايجنسيوں کی نظروں ميں ہيں۔
باڈ بيبرا ميں اس بيئر کی فروخت کی نشاندہی ايک مقامی قدامت پسند سياست دان گوٹز اُولرش نے کی۔ انہوں نے اپنی فيس بک اکاؤنٹ پر تصاوير پوسٹ کيں اور ساتھ ہی اپنی تحرير ميں لکھا، ''ميں شرمندہ ہوں۔‘‘ اپنی تحرير ميں انہوں نے مزيد کہا کہ يہ بات ايک ايسے موقع پر سامنے آ رہی ہے جب اس ہفتے آؤشوٹس کے اذيتی کيمپ کی آزادی کے پچھتر برس مکمل ہونے کی تقاريب جاری ہيں۔ گوٹز اُولرش نے مزيد لکھا، ''سب سے پريشان کن بات يہ ہے کہ مذکورہ بيئر کافی مقدار ميں فروخت ہوئی، اتنی کہ ختم ہی ہو گئی۔‘‘ جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے اُولرچ نے کہا کہ يہ قابل فکر پيش رفت ہے کہ لوگ اس عمل پر شرمندہ نہيں اور انہيں نيو نازيوں پر اپنا پيسہ ضائع کرنے ميں کوئی پشيمانی نہيں۔
باريک جائزے ميں مزيد کچھ انکشافات سامنے آئے ہيں۔ اس بيئر کا ايک کریٹ 18.88 يورو ميں فروخت ہو رہا ہے۔ نيو نازيوں کے حلقوں ميں يہ ہندسہ سابق جرمن آمر اڈولف ہٹلر اور انہيں سلوٹ پيش کرنے کے ليے استعمال کيا جاتا ہے۔
باڈ بيبرا ميں جس اسٹور پر يہ بيئر فروت کی جارہی تھی، وہ Getränke-Quelle نامی ايک چين کا حصہ ہے۔ پوليس کی کارروائی کے بعد اس چين نے مذکورہ اسٹور کے ساتھ اپنی پارٹنرشپ منسوخ کر دی ہے اور اس واقعے سے لا تعلقی کا اظہار کيا ہے۔
پچھلے دس سالوں کے دوران دنيا بھر ميں مسلم، يہودی اور سياہ فام افراد کی برادرياں انتہائی دائيں بازو کے سياسی نظريات کے حامل افراد کے کئی پر تشدد حملوں کا نشانہ بنی ہيں۔ ايسے چند بڑے حملوں کی تفصیلات اس پکچر گيلری میں۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم خاندان کے ارکان پر ٹرک حملہ
کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے اپنا پک اپ ٹرک پیدل چلنے والے ایک مقامی مسلم خاندان کے افراد پر چڑھا دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ لندن میں پیش آنے والے اس واقعے کا بیس سالہ مشتبہ ملزم حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ کے مطابق اس جرم کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
نيوزی لينڈ، سن 2019: دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے
کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں ميں انتہائی دائيں بازو کے ایک دہشت گرد نے، جو ایک آسٹریلوی شہری ہے، دو مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ کی تاريخ میں دہشت گردی کے بد ترين اور سب سے ہلاکت خیز جڑواں واقعات تھے۔
تصویر: picture-alliance/empics/PA Wire/D. Lawson
جرمنی، سن 2019: نئے سال کی آمد پر حملہ
جرمنی کے مغربی شہروں بوٹروپ اور اَيسن ميں اکتيس دسمبر کی رات نئے سال کی آمد کی تقريبات کے دوران ايک پچاس سالہ حملہ آور نے تارکين وطن پر حملے شروع کر ديے۔ اپنی گاڑی کی مدد سے اس حملہ آور نے آٹھ افراد کو زخمی کيا۔ مجرم نے شامی اور افغان خاندانوں کو نشانہ بنايا تھا۔ پوليس نے بعد ازاں تصديق کی کہ حملہ آور غير ملکیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
امريکا، سن 2018: يہوديوں کی عبادت گاہ پر فائرنگ
ستائیس اکتوبر سن 2018 کے روز ايک چھياليس سالہ حملہ آور نے امريکا کے شہر پٹسبرگ ميں يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو قتل اور سات ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے اپنی کارروائی سے قبل ساميت دشمن جذبات کا مظاہرہ بھی کيا تھا اور انٹرنيٹ پر اس ضمن ميں مواد بھی جاری کيا تھا۔ يہ امريکا ميں يہوديوں پر کیا گیا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Rourke
کينيڈا، سن 2017: کيوبک کی مسجد پر حملہ
کينيڈا کے شہر کيوبک کے اسلامی ثقافتی مرکز پر جنوری 2017 کے اواخر ميں ايک مسلح حملہ آور نے فائرنگ کر کے چھ افراد کو ہلاک اور ايک درجن سے زائد کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے مغرب کی نماز کے دوران نمازيوں پر فائرنگ کی تھی۔ بعد ازاں کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مسلمانوں پر ايک ’دہشت گردانہ‘ حملہ قرار ديا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
برطانيہ، سن 2017: فنسبری پارک مسجد
برطانوی دارالحکومت لندن کے شمالی حصے ميں ايک سينتاليس سالہ حملہ آور نے فنسبری پارک کے قريب واقع مسجد کے قريب کھڑے افراد کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔ اس حملے ميں ايک شخص ہلاک اور دس ديگر زخمی ہوئے تھے۔ تمام متاثرين مسلم تھے، جو ماہ رمضان ميں فجر کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ حملہ آور نے بعد ازاں تسليم کيا تھا کہ اس نے يہ کارروائی ’اسلام دشمنی‘ کی وجہ سے کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
جرمنی، سن 2016: ميونخ ميں فائرنگ کا واقعہ
ايک اٹھارہ سالہ ايرانی نژاد جرمن شہری نے بائيس جولائی سن 2016 کے روز ميونخ کے ايک شاپنگ مال ميں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک اور چھتيس ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ بعد ازاں حملہ آور خود بھی مارا گيا تھا۔ پوليس کے مطابق مجرم اجانب دشمنی ميں مبتلا تھا اور نسل پرستانہ رجحانات کا حامل بھی تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اسے اسکول ميں اس کے ساتھی اکثر تنگ کيا کرتے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Simon
امريکا، سن 2015: چارلسٹن کے چرچ ميں قتل عام
امريکا ميں سياہ فام افراد کے چرچ ’ايمانوئل افريقی ميتھوڈسٹ ايپسکوپل چرچ‘ پر سترہ جون سن 2015 کو ايک اکيس سالہ نوجوان نے حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ رياست جنوبی کيرولائنا کے شہر چارلسٹن ميں پیش آنے والے اس واقعے ميں نو افريقی نژاد امريکی شہری اور ايک پادری ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
امريکا، سن 2015: چيپل ہل شوٹنگ
دس فروری سن 2015 کے روز يونيورسٹی کے تین عرب مسلم طلبہ، جو ایک مرد، اس کی بیوی اور اس کی خواہر نسبتی پر مشتمل تھے، ان کے ايک سفيد فام پڑوسی نے قتل کر ديا تھا۔ چھياليس سالہ مجرم خود کو مذہب مخالف قرار دیتا تھا اور وہ ان تینوں مقتولين کو کئی مرتبہ ڈرا دھمکا بھی چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد امريکا ميں #Muslimlivesmatter کا ہيش ٹيگ وائرل ہو گیا تھا۔
دائيں بازو کے انتہا پسند آندرس بريوک نے 22 جولائی 2011ء کو دوہرے حملے کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر ديا تھا۔ پہلے اس نے اوسلو ميں ايک علاقے ميں بم دھماکا کيا جہاں کئی سرکاری دفاتر موجود تھے اور پھر ايک سمر کيمپ ميں طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے سے قبل بريوک نے اپنا منشور بھی جاری کيا تھا، جس کے مطابق وہ يورپ کے کثير الثقافتی معاشروں اور اس براعظم ميں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit
امريکا، سن 2017: شارلٹس وِل ميں کار سے حملہ
رياست ورجينيا کے شہر شارلٹس وِل ميں نيو نازيوں کی ايک ريلی کی مخالفت ميں احتجاج کرنے والوں پر ايک قوم پرست شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔ اس حملے ميں ايک عورت ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ يہ واقعہ بارہ اگست کے روز پيش آيا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P.J. Richards
جرمنی، سن 2009: ڈريسڈن کی عدالت ميں عورت کا قتل
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا الشربينی کو ڈريسڈن کی ايک عدالت ميں يکم جولائی سن 2009 کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ان کا قاتل ايک اٹھائيس سالہ روسی اور جرمن شہريتوں کا حامل ملزم تھا، جس کے خلاف الشربينی نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل ہی گواہی دی تھی۔ مجرم نے قبل ازيں الشربينی کو ’دہشت گرد اور اسلام پسند‘ کہا تھا۔ مروا الشربينی کے قتل کو جرمنی ميں ’اسلاموفوبيا‘ کے نتيجے ميں ہونے والا پہلا قتل قرار ديا جاتا ہے۔