جرمنی: نسل پرستی، سامیت دشمنی کے واقعات کی رپورٹنگ اب زیادہ
28 جون 2023
دو نئے مطالعاتی جائزوں کے مطابق جرمنی میں نسل پرستی اور سامیت دشمنی کے واقعات ملک کے وسیع تر حصوں میں رونما ہوتے ہیں مگر ان کے خلاف عوامی شعور بھی بڑھا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایسے واقعات اب رپورٹ بھی زیادہ کیے جاتے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے کُل 16 وفاقی صوبوں میں سے 11 میں ایسے رپورٹنگ مراکز قائم ہیں، جہاں متاثرین یا سول سوسائٹی کے نمائندے ایسے واقعات کا باقاعدہ اندراج کروا سکتے ہیں جن میں نسل پرستی یا سامیت دشمنی کی بنیاد پر امتیازی رویوں کا مظاہرہ کیا گیا ہو۔ ایسے واقعات کی بنیاد پر ان رپورٹنگ آفسز کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک رپورٹ منگل ستائیس جون کو جاری کی گئی۔
اس رپورٹ کو ''جرمنی میں 2022ء میں سامیت دشمنی کے واقعات‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں ملک بھر میں رونما ہونے والے ایسے واقعات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں، جن میں یہودی متاثرین کو ان کے مذہب کی وجہ سے ''جسمانی، زبانی یا تحریری تشدد اور امتیازی رویوں‘‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
جرمنی میں سامیت دشمنی سے متعلق معلومات اور تحقیق کے مراکز کی وفاقی تنظیم آر آئی اے ایس (RIAS) نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ برس رونما ہونے والے ایسے واقعات میں سے نو انتہائی نوعیت کے پرتشدد واقعات تھے۔ ان سے مراد ایسے واقعات ہیں، جن میں ممکنہ طور پر موت یا شدید جسمانی نقصان کی وجہ بننے والے حملے کیے گئے۔
اس مطالعاتی رپورٹ کی شریک مصنفہ بیانکا لوئے نے کہا، ''انتہائی نوعیت کے ایسے پرتشدد واقعات صرف ان علاقوں کو ہی متاثر نہیں کرتے، جہاں یہ رونما ہوتے ہیں، ان کے اثرات ان خطوں میں بھی دیکھے جاتے ہیں جہاں ایسے واقعات رونما تو نہیں ہوتے مگر جن کی وجہ سے مقامی یہودی آبادی میں ذاتی تحفظ اور سلامتی کا احساس ماند پڑ جاتا ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جرمنی بھر میں رپورٹ کیے گئے نسل پرستانہ نوعیت کے سامیت دشمن واقعات کی مجموعی تعداد میں اس سے پہلے کے برسوں کے مقابلے میں معمولی کمی ہوئی، جس کا سبب بین الاقوامی سطح پر ان واقعات کی تعداد میں کمی تھا، جن کے پس منظر میں ایسے حملے کیے جاتے ہیں۔ مثلاﹰ2021ء میں غزہ پٹی کے علاقے میں حماس اور اسرائیلی فوج کے مابین تنازعہ کافی خونریز رہا تھا مگر 2022ء میں مجموعی طور پر اس تنازعے کی شدت کم رہی۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بھی ایسے واقعات کی رپورٹنگ قدرے متاثر ہوئی۔
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے متعدد ایسے واقعات کی چھان بین ابھی جاری ہے، جو سب سے زیادہ آبادی والے وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں رپورٹ کیے گئے اور جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان میں ممکنہ طور پر ایرانی 'اسٹیٹ ایکٹرز‘ ملوث تھے۔
اس بارے میں بیانکا لوئے نے کہا، ''یہ بات تشویش ناک ہے کہ ایسے اکٹھے تین بڑے واقعات کو سماجی سطح پر زیادہ توجہ نہ ملی حالانکہ مقامی یہودی برادریوں کے لیے ایسے حملوں کے باعث خطرات اور خدشات آج بھی موجود ہیں۔‘‘
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: Imago
9 تصاویر1 | 9
سماجی سطح پر امتیازی رویے
آر آئی اے ایس کی امسالہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں کئی واقعات میں ایسے حملوں میں نسل پرستانہ سوچ، سامیت دشمنی اور معاشرتی سطح پر کئی طرح کے امتیازی رویوں کا امتزاج بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ مثلاﹰ کسی یہودی خاتون پر جب زبانی سامیت دشمن حملہ کیا جاتا ہے، تو ساتھ ہی اس میں نسل پرستانہ سوچ بھی واضح ہو جاتی ہے اور متعلقہ خاتون کو صنفی بنیادوں پر بھی امتیازی سلوک اور تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جرمنی میں امتیازی سلوک کی روک تھام اس مقصد کے لیے قائم وفاقی ادارے اے ڈی ایس کا کام ہے۔ اس کے علاوہ ایک قانون اے جی جی کے نام سے بھی موجود ہے، جو کسی بھی فرد کے خلاف نسلی، لسانی، صنفی یا مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ ملک میں کوئی بھی ایسا فرد جسے اپنے خلاف روزگار کی جگہ پر یا روزمرہ زندگی میں ایسے رویوں یا برتاؤ کا سامنا ہو، اس ادارے سے رابطہ کر سکتا ہے۔
اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس اس کے اہلکاروں سے اتنے زیادہ متاثرین نے رابطہ کیا، جتنا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ 2022ء میں اس ادارے کو کُل 8,827 ایسی درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں متاثرین نے ایسے واقعات کی اطلاعات دیتے ہوئے مشورے مانگے تھے۔ یہ تعداد 2021ء کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ تھی۔
مذہبی خواتین اپنا سر کیسے ڈھانپتی ہیں؟
اسلام، مسیحیت یا یہودیت، ان تمام مذاہب میں خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پردے کی غرض سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ ان مذاہب میں اس طرح کے پردے میں کیا مماثلتیں ہیں اور یہ خواتین ان مذہبی پابندیوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پردے کے پیچھے
’’ایسی مسلم خواتین، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، وہ اپنے مذہبی عقائد کے باعث کٹھ پتلیاں نہیں ہیں‘‘، یہ کہنا ہے ترک ویڈیو آرٹسٹ نیلبار گیریش کا۔ سن دو ہزار چھ کی Undressing نامی اس پرفارمنس میں گیریش دکھاتی ہیں کہ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرا پردہ اتارتی ہے اور ساتھ ہی اپنی فیملی کی مختلف خواتین کے نام بڑبڑاتی ہے۔ انہوں نے یہ پراجیکٹ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافے کے ردعمل میں کیا تھا۔
تصویر: Nilbar Güres
جعلی بال
آنا شیتن شلیگر کا Covered نامی سیلف پورٹریٹ 2009ء میں منظر عام پر آیا، جس میں وہ دو مختلف وِگز پہنے ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہودی مذہبی خواتین اس طرح کی وگ کا استعمال کرتی تھیں۔ سترہویں صدی کے اختتام سے ان خواتین نے اپنے بالوں کے پردے کے لیے tichel نامی ایک خاص قسم کا اسکارف پہننا شروع کیا۔ کبھی ایسی وگز بھی فیشن میں رہیں، جو آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے scheitel نامی حجاب کا ایک بہترین متبادل تھیں۔
تصویر: Anna Shteynshleyger
ایک عقیدہ، مختلف مذاہب
مسلم خواتین مختلف قسم کے اسکارف یا حجاب لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے؟ مخصوص قسم کا ہیڈ اسکارف دراصل ایک خاص مذہبی عقیدے اور ثقافتی پس منظر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل مسلمانوں میں ہیڈ اسکارف کو ایک اہم مذہبی جزو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
مذہبی اجتماعات میں سر کا پردہ
فوٹو گرافر ماریہ میہائلوف نے برلن میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا میں ہونے والی عبادات کو عکس بند کیا ہے۔ ان عبادات اور تقریبات کے دوران خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے، جو اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں کم ہی دکھنے میں آتا ہے۔
تصویر: Marija Mihailova
بالوں میں ڈھکی ہوئی خاتون
لمبے، گھنے اور سیاہ بال عرب ممالک میں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ یہی بات اس مجسمے میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویڈن کی ایرانی نژاد آرٹسٹ ماندانہ مقدم نے اپنے Chelgis I نامی اس مجسمے میں دکھایا ہے کہ اگرچہ بال عورت کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن یہی بال ایک ایسا پردہ تخلیق کرنے کا باعث بنے ہیں، جس سے اس کی شناخت چھپ جاتی ہے۔
تصویر: Mandana Moghaddam
بال، صرف شوہر کی آنکھوں کے لیے
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی روایات کے مطابق کسی خاتون کی شادی کے بعد اس کے بال صرف اس کا شوہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے شادی شدہ خاتون کو اپنے بال پردے میں رکھنا چاہییں، چاہے اس مقصد کی خاطر ہیڈ اسکارف پہنا جائے، مصنوعی بال(وِگ) استعمال کیے جائیں یا بالوں کو کسی اور طریقے سے ڈھانپ لیا جائے۔ یہ تصویر Leora Laor نے سن دو ہزار ایک میں یروشلم میں بنائی تھی، جس میں خواتین tichel نامی حجاب میں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Leora Laor
مختلف تشریحات
یہودی خواتین کی یہ تصویر فیڈریکا والابریگا نے سن دو ہزار گیارہ میں نیو یارک کے قریب ایک ساحل سمندر پر بنائی تھی۔ اگرچہ ان تمام خواتین نے ہیڈ اسکارف پہن رکھے ہیں لیکن ان کے بال ان حجابوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عقائد تو بہت سے ہیں لیکن اس کا انحصار اس کے ماننے والوں پر ہے کہ وہ کس طرح ان کی تشریحات کرتے ہیں۔
تصویر: Federica Valabrega
بُرکینی سے پردہ
سمندر میں پیراکی کے دوران بھی اپنے عقائد سے وفادار رہنا؟ مغربی ممالک میں مقیم بہت سی مسلم خواتین کے لیے بُرکینی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کہ اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی کھلے آسمان تلے سمندر میں انجوائے کر سکتی ہیں۔ تاہم مغرب میں بھی کئی حلقے اس سوئمنگ سوٹ کو مسلم بنیاد پرستی کی علامت کے طور پر ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
8 تصاویر1 | 8
امتیازی سلوک کو قبول کرنے سے انکار میں اضافہ
جرمنی میں امتیازی رویوں کے خلاف کامیاب جدوجہد کے لیے وفاقی حکومت کی نامزد کردہ غیر جانبدار کمشنر کا نام فیردا آٹامان ہے۔ وہ ایک نئے جائزے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ''سماجی طور پر کسی معاشرے کی بلوغت کی ایک اہم نشانی یہ بھی ہے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ امتیازی برتاؤ کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق جرمنی میں بھی اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔
فیردا آٹامان کہتی ہیں کہ یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کی جانا چاہیے کہ جرمنی میں بھی لوگ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے بارے میں بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں اور جہاں ضروری ہو، اپنے لیے مدد بھی طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے زیادہ رپورٹ کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں امتیازی سلوک کے خلاف اور اس سے جڑے ہوئے موضوعات کے بارے میں شعور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
م م/ا ب ا (لیزا ہینل)
کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔