جرمنی میں نیوزی لینڈ کی مساجد جیسے بڑے حملوں کا منصوبہ ناکام
17 فروری 2020
جرمن حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق گزشتہ ہفتے گرفتار کر لیے جانے والے انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کے ایک گروہ نے ملک میں مسلمانوں کی مساجد پر وسیع تر خونریزی کا سبب بننے والے دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنایا تھا۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے پیر سترہ فروری کو ملنے والی رپورٹوں میں وفاقی حکومت کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا کہ انتہائی دائیں بازو کے جس جرمن شدت پسند گروپ نے ملک میں وسیع پیمانے پر مساجد پر مسلح حملوں کا منصوبہ بنایا تھا، اور جسے قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں نے قبل از وقت ناکام بھی بنا دیا، اس کے لیے مثال گزشتہ برس نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کو بنایا گیا تھا۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
زیر حراست انتہا پسندوں کی تعداد بارہ
ان انتہا پسند ملزمان کی تعداد 12 ہے اور انہیں پولیس نے گزشتہ جمعے کے روز جرمنی کے مختلف شہروں میں چھاپے مار کر گرفتار کیا تھا۔
جرمن حکومتی ترجمان نے بتایا کہ ان ملزمان سے اب تک کی جانے والے تفتیش کے جو حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق ان شدت پسندوں نے متعدد مقامات پر جرمنی میں مسلم مذہبی اقلیت کی عبادت گاہوں پر بڑے دہشت گردانہ حملوں کا ارادہ بنا رکھا تھا۔
اسی بارے میں جرمن میڈیا میں کل اتوار کو شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی ملکی تفتیش کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے یہ جرمن شدت پسند اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ انہیں مختلف شہروں میں نماز کے دوران تقریباﹰ بیک وقت کئی ایسے مربوط خونریز حملے کرنا تھے، جن کا مقصد جرمنی میں مسلمان برادری کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا تھا۔ دریں اثناء برلن میں وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان بیورن گروئنے وَیلڈر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا، ''اب تک ان شدت پسندوں سے چھان بین کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ انتہائی حیران کن ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں ان شدت پسندوں کے ایسے چھوٹے چھوٹے گروہ موجود ہیں، جن کے ارکان حیران کن حد تک مختصر وقت میں انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ہو چکے ہیں۔‘‘
ہر فرد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا تحفظ حکومت کی ذمے داری
اسی بارے میں وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے آج پیر کے روز کہا، ''یہ ریاست کا کام ہے، اور ظاہر ہے کہ اس ریاست کی حکومت کا بھی، کہ وہ کسی بھی ملک میں ہر مذہب کے پیروکاروں کے لیے اپنے عقیدے پر آزادانہ عمل کر سکنے کو یقینی بنائے۔ اس بات کا اس امر سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی فرد کس مذہب کا ماننے والا ہے۔‘‘
اشٹیفن زائبرٹ نے کہا، ''جرمنی میں ملکی قوانین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے والے ہر فرد اور ہر برادری کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر آزادانہ اور کسی بھی قسم کے خطرے کے بغیر عمل پیرا ہو سکے۔‘‘
ملکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے جرمن شدت پسندوں کے اس گروہ نے منصوبہ بنا رکھا تھا کہ وہ ملک میں تقریباﹰ ایک ہی وقت پر کئی مسلم مساجد پر نیم خود کار ہتھیاروں سے ایسے خونریز حملے کرے گا، جیسے گزشتہ برس موسم بہار میں نیوزی لینڈ میں کیے گئے تھے۔ تب کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر کیےگئے ان دہشت گردانہ حملوں میں مجموعی طور پر 51 افراد مارے گئے تھے۔
دائیں باز وکی خطرناک شدت پسندوں کی تعداد پچاس سے زائد
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس زیر حراست گروہ کا سرغنہ ایک ایسا شدت پسند ہے، جو اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے جرمن اداروں کے حکام کی نظروں میں تھا اور جس کی آن لائن چیٹنگ پر بھی حکام نظر رکھے ہوئے تھے۔
گروہ کے اس سرغنے نے حملوں کے منصوبے کی تفصیلات اپنے ساتھیوں کو ایک ایسی ملاقات میں بتائی تھیں، جس کا اہتمام گزشتہ ہفتے ہی کیا گیا تھا۔ ملزمان کی اس باہمی ملاقات کے بعد ہی جرمن پولیس نے کئی مقامات پر چھاپے مار کر ان شدت پسندوں کو گرفتار کیا تھا۔
جرمن ہفت روزہ جرہدے ڈئر اشپیگل کے مطابق جرمن پولیس کے پاس اس وقت 53 ناموں پر مشتمل انتہائی دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسندوں کی ایک ایسی فہرست بھی موجود ہے، جو سب کے سب 'خطرناک‘ سمجھے جاتے ہیں اور ممکنہ طور پر خونریز حملے بھی کر سکتے ہیں۔
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔