جرمنی میں ٹرینیں خالی اور مسافر غائب مگر سروس جاری
7 اپریل 2020
کورونا وائرس کے بحران کے باعث دیگر شعبوں کی طرح جرمنی میں قومی ریل آپریٹر کمپنی ڈوئچے بان بھی متاثر ہوئی ہے البتہ ضروری ساز و سامان اور مسافروں کے لیے کمپنی نے سروس جاری رکھی ہوئی ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں ان دنوں جرمنی میں چلنے والی ٹرینوں پر مسافروں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ جرمنی کے قومی ریل آپریٹر ڈوئچے بان کے سربراہ رچرڈ لٹس نے بتایا آج کل ٹرینوں پر مسافروں کی تعداد معمول سے صرف پندرہ فیصد رہ گئی ہے۔
اسی دوران ڈوئچے بان کی فریٹ سروس یا سامان بردار ٹرینوں کی سروس کی مانگ بھی کم ہوئی ہے۔ فی الحال آٹوموبائل سیکٹر کے کانٹریکٹ معطل ہیں اور کام کم ہے البتہ یہ سروس کورونا وائرس کے بحران کے وقتوں میں ضروری ساز و سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کام کر رہی ہے۔
رچرڈ لٹس نے اس ہفتے کے آغاز پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا، "بیکری کا سامان ہو، ٹوائلٹ پیپر ہو یا پھر آٹا، حالیہ دنوں ہم متعدد کمپنیوں کو لوجسٹکل سروس مہیا کرتے آئے ہیں۔" یہ ٹیلی فون کانفرنس پیر کے روز منعقد ہوئی تھی اور اس میں ڈوئچے بان کے سربراہ رچرڈ لٹس نے کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے کمپنی پر اثرات کے بارے میں آگاہ کیا۔
داخلی سطح پر اور بیرون ملک سے ٹرانسپورٹ کیے جانے والے سامان کی کمی کے باعث ڈوئچے بان کی فریٹ سروس معمول سے 70 فیصد پر کام کر رہی ہے۔ نتیجتاً کمپنی ہر وہ چیز ٹرانسپورٹ کر رہی ہے، جس کی ان دنوں صارفین کو ضرورت ہے۔
وائرس کے خوف کے سبب ٹرین میں مسافروں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے۔ تاہم ڈوئچے بان نے طویل فاصلے تک سفر کرنے والی ٹرینیں کی سروس اب بھی معمول سے 75 فیصد پر جبکہ شہروں کے اندر کی سروس معمول سے 65 فیصد پر جاری رکھی ہوئی ہے۔
ڈوئچے بان کمپنی کے سربراہ رچرڈ لٹس کے مطابق بحران کے باوجود ٹرین سروس جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں کو بھی اس کی ضرورت پڑے، ٹرینیں ان کے لیے موجود ہوں۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جو لوگ بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کا کام کاج ایسے شعبوں سے وابستہ ہے، جن کا چلنا لازمی ہے، تو وہ ملازمت کی جگہوں تک پہنچ سکیں۔ ڈوئچے بان کے سربراہ رچرڈ نے یہ بھی کہا کہ کمپنی کا موٹو استحکام ہے۔
لٹس نے مزید بتایا کہ مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر مسافروں کا کافی رش ہوتا ہے لیکن اس بار بکنگز نہ ہونے کے برابر ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے دور دراز کے سفر کے ارادے ترک کر دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی اس سال آمدنی میں کمی کی توقع کر رہی ہے۔لٹس نے بتایا، "کورونا وائرس کی وبا سے دیگر تمام شعبوں کی طرح ہمیں بھی کافی نقصان پہنچے گا۔ وبا کی وجہ سے ڈوئچے بان کو 24 ملین یورو کا نقصان ہو چکا ہے اور مزید صورتحال اس وقت واضح ہوگی جب معاملات واضح ہوں گے۔
ڈوئچے بان کی طویل فاصلے یا شہروں سے شہروں تک سفر کرنے والی سروس انٹر سٹی اور انٹر سٹی ایکسپریس پر پچھلے سال ڈیڑھ سو ملین مسافروں نے سفر کیا تھا۔ یہ اس سے ایک سال قبل کے مقابلے میں 2.8 ملین زیادہ مسافر تھے تاہم اسی دوران یعنی پچھلے سال سامان بردار ٹرینوں کے بوجھ میں 3.7 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔
ع س / ع ح، نیوز ایجنسی ڈی پی اے، روئٹرز اور اے ایف پی
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔