جرمن چانسلر کی طرف سے کچھ نئے اقدامات لینے کا اعلان کیا گیا ہے، جس پر جرمن عوام کی طرف سے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم بعض ناقدین کے مطابق سخت اقدامات کو نرم کیا جائے گا تو میرکل کی عوامی حمایت میں کمی ہو سکتی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں کووڈ انیس کی عالمی وبا پر قابو پانے کی خاطر چانسلر انگیلا میرکل نے پہلے سے طے شدہ معیارات میں کچھ نئی اقدامات بھی تجویز کر دیے ہیں۔ ان میں سے کچھ پابندیاں غیر معینہ مدت کے لیے ہوں گی۔ بدھ کے دن میرکل نے کہا کہ فی الحال چار مئی تک ان معیارات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
آئندہ ماہ چار مئی سے اسکولوں کو آہستہ آہستہ کھولا جائے گا جبکہ چھوٹی دوکانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کی اجازت ہو گی لیکن اس دوران براہ راست سماجی رابطوں پر پابندی برقرار رہے گی اور حفظان صحت کے سخت اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
میرکل نے اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے طے گئے کیے قواعد و ضوابط پر عوام کی حمایت پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس وبا کی وجہ سے متاثرہ افراد کے ساتھ ہمدری کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ جب تک کوئی دوا یا ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، سبھی لوگوں کو ان حالات میں گزارا کرنا ہو گا۔
جرمنی میں جمعرات تک اس عالمی وبا کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تین ہزار چھ سو چھ بتائی گئی ہے جبکہ کم از کم ایک لاکھ بتیس ہزار افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان متاثرہ افراد میں بہتر ہزار افراد دوبارہ تندرست ہو چکے ہیں۔
جرمنی میں کرائے جانے والے عوامی جائزوں کے مطابق زیادہ تر عوام حکومت کی طرف سے بنائی گئی گائیڈ لائنز کے حق میں ہیں۔ YouGov Deutschland کی طرف سے منگل کے دن کرائے گئے ایک ایسے ہی جائزے کے مطابق اکثریت نے کہا کہ براہ راست سماجی رابطوں پر عائد موجودہ پابندیوں کو فی الحال برقرار رہنا چاہیے۔
نئے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟
آٹھ سو اسکوائر میٹر (8,610 فٹ) یا اس سے چھوٹی دوکانیں بیس اپریل سے کھولی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان دوکانوں میں خریداری کی غرض سے جانے والے افراد کو ایک دوسرے سے ڈیڑھ میٹر تک فاصلہ رکھنا ہو گا۔
چار مئی سے جرمن اسکولوں کو مرحلہ وار کھولنا شروع کر دیا جائے گا۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے آخری سال کی کلاسوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسکولوں میں حفظان صحت کے سخت اصولوں کو یقینی بنایا جائے گا۔
اگر سخت حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے تو چار مئی سے حجام بھی اپنی دوکانیں کھول سکیں گے۔
براہ راست سماجی رابطوں پر عائد پابندی برقرار رہے گی اور گھروں سے باہر دو یا اس سے زیادہ افراد اکٹھا نہیں ہو سکیں گے۔ ساتھ ہی لوگوں سے پانچ فٹ کا فاصلہ لازمی ہو گا۔
بڑے عوامی اجتماعات، کھیلوں اور کانسرٹس کے ایونٹس پر اکتیس اگست تک پابندی برقرار رہے گی۔
بارز، ریستوراں، ڈے کیئر سینٹرز، سنیما گھر اور تھیئٹرز غیر معینہ مدت کے لیے بند رہیں گے۔ مستقبل قریب تک تمام مذہبی اجتماعات پر بھی پابندی برقرار رہے گی۔
پبلک ٹرانسپورٹ اور دوکانوں میں حفاظتی ماسک پہننے کو تجویز کیا گیا ہے لیکن یہ عمل ہر کسی کے لیے لازمی قرار نہیں دیا گیا۔
کم ازکم مزید بیس دنوں تک جرمنی کی سرحدوں پر سخت کنٹرول جاری رہے گا۔
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے قبل جرمن معاشرہ کئی معاملات پر اختلافات کا شکار تھا۔ لیکن اس وبا نے جرمن عوام کو متحد کر دیا ہے اور تمام حلقے حکومتی اقدامات کی ستائش کر رہے ہیں۔
لیکن ناقدین کے مطابق جب حکومت لاک ڈاؤن کی صورتحال میں نرمی کرے گی تو عوام میں ایک بے چینی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ینز تھوراؤ کے بقول اس صورتحال سے نکلنے کے لیے جرمن قیادت کو انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔
ع ب / ع س / شو ماخر بیتھ
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔