جرمنی میں پاکستانی، افغان مہاجرین: ’کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں‘
شمشیر حیدر ڈی پی اے
18 جولائی 2017
جرمنی میں کرکٹ شاذ و نادر ہی کھیلی جاتی ہے، لیکن پاکستانی اور افغان مہاجرین کی آمد کے بعد ملک میں کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جرمنی میں ملک گیر کرکٹ لیگ بھی فروغ پا رہی ہے۔
اشتہار
گیند بلے سے ٹکرا کر ہوا میں بلند ہوئی، دو مرتبہ گراؤنڈ پر ٹپے کھانے کے بعد باؤنڈری پار کر گئی، بلے باز اور اس کے ساتھی خوشی سے چلانے لگے۔
پاکستانی تارک وطن احمد ارشاد اور اس کے ساتھی جب کرکٹ کھیلتے ہیں، تو وہ پوری طرح اس کھیل میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان تارکین وطن کے لیے کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔
ارشاد اور اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے قریب سبھی کھلاڑی مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان سے ترک وطن کر کے جرمنی آئے ہیں۔ انہی جیسے کئی دیگر پاکستانی اور افغان تارکین وطن کی بدولت جرمنی میں اس کھیل کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
مہاجرین کی بدولت، جرمنی میں کرکٹ فروغ پاتی ہوئی
01:54
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفت گو کرتے ہوئے ارشاد کا کہنا تھا، ’’کرکٹ میرے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ زندہ رہنا۔ میں اپنی زندگی میں بس کرکٹ ہی کھیلنا چاہتا ہوں۔‘‘ احمد ارشاد کے مطابق اسے پاکستان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر ظلم کا سامنا تھا، جس کے بعد اس نے ترک وطن کا فیصلہ کیا تھا۔
ارشاد اور اس کے ساتھی جرمنی میں ایم ایس وی باؤٹسن کہلانے والی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتے ہیں۔ جرمنی میں بھی وہ یہ کھیل پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلتے ہیں، پچ کی تیاری بھی کی جاتی ہے اور ہر اسکور اور گیند کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے۔
باؤٹسن کی ٹیم کا مقابلہ برلن کی کرکٹ ٹیم سے ہو رہا تھا۔ کھیل کے دوران ماحول کافی دوستانہ تھا اور وقفے کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پکا کر ساتھ لایا ہوا کھانا مل کر کھایا تھا۔
اس میچ میں باؤٹسن کی کارکردگی کچھ اچھی نہیں رہی اور برلن نے 184 رنز کے ہدف کا باآسانی تعاقب کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر لی۔ ہارنے کے باوجود باؤٹسن کی ٹیم کے لیے جرمنی کی قومی کرکٹ لیگ تک پہنچنے کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ اس ٹیم نے سات میں سے پانچ میچوں میں کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔
اس ٹیم کی بنیاد صرف ایک برس قبل رکھی گئی تھی۔ لیکن اس نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب سخت جانچ پڑتال کے بعد کیا جاتا ہے اور اب تو اس کرکٹ ٹیم کے فین بھی گراؤنڈ میں میچ دیکھنے آ جاتے ہیں۔
مہاجرین کی مدد کرنے والی ایک سماجی تنظیم اس ٹیم کی مالی معاونت کرتی ہے۔ اس سماجی تنظیم کی ایک رکن اینا صوفی پوہل کہتی ہیں، ’’کرکٹ وہ واحد کھیل ہے، جسے کھیلتے ہوئے یہ مہاجرین یہ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جرمنی میں مہاجر کے طور پر مقیم ہیں۔‘‘
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔