مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سربراہ فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ جرمنی میں پناہ دینے کا حق ملکی آئین کا حصہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے تناظر میں بنایا گیا تھا، جو موجودہ حالات میں موزوں نہیں رہا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمنی کی قدامت پسند اور مہاجرت مخالفت سیاسی پارٹی ’متبادل برائے جرمنی‘ (اے ایف ڈی) کی خاتون رہنما فراؤکے پیٹری کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’پناہ دیے جانے کے حق‘ سے متعلق قانون کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ جب یہ قانون بنایا گیا تھا، اس وقت کی صورتحال مختلف تھی، جو اب یکسر بدل چکی ہے۔ جرمنی کا بنیادی آئین سن 1949 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس آئین کے آرٹیکل سولہ میں واضح طور پر درج ہے کہ ایسے افراد جنہیں اپنے ممالک میں سیاسی بنیادوں پر ظلم و ستم کا سامنا ہو، انہیں جرمنی میں پناہ دی جائے گی۔
فراؤکے پیٹری نے روزنامہ ’ دی سائٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آرٹیکل سولہ اے کی حمایت کرتی ہیں تاہم پناہ دیے جانے کے عمل میں ریاستی سطح پر فیصلہ سازی کی جانا چاہیے نہ کہ سبھی کو پناہ دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کی مدد کی جانا چاہیے لیکن ایسے بہت سے افراد بھی اپنے مہاجر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو دراصل مہاجر ہوتے ہی نہیں۔
فراؤکے پیٹری نے کہا کہ جرمن آئین کو بنانے والے مہاجرین کی بہت کم تعداد کو پناہ دینے کی بات کر رہے تھے، جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد احساس ذمہ داری کے تحت پناہ دینے کا قانون بنایا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی پر لازم نہیں کہ وہ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں اپنے ہاں زیادہ تارکین وطن یا مہاجرین کو پناہ دے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق شامی مہاجرین پر نہیں کیا جا سکتا۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
سن دو ہزار پندرہ کے آغاز سے اب تک ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے ہے، جن میں شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی اور حالیہ عرصے کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد نہ صرف جرمن سیاسی پارٹیاں بلکہ کچھ عوامی حلقے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اے ایف ڈی جیسی عوامیت پسند پارٹیاں اس معاملے کو اٹھا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا اپنا قدامت پسند حکومتی اتحاد بھی جرمنی آنے والے نئے مہاجرین کی تعداد کی ایک سالانہ حد کے تعین کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی میں رواں برس موسم خزاں میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات انگیلا میرکل کی پارٹی کے لیے انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ میرکل کا کہنا ہے کہ جرمن آئین میں آرٹیکل سولہ اے ایک ایسی شق ہے، جس سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔