جرمنی میں پناہ دینے کے فیصلے، اسکینڈل بڑا ہوتا ہوا
20 مئی 2018
جرمنی کا ادارہ برائے مہاجرت BAMF پناہ کے متلاشیوں کی درخواستوں پر لیے جانے والے فیصلوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس ادارے کی بریمن کی برانچ میں ’نامناسب طریقے‘ سے پناہ دیے جانے کے سینکڑوں واقعات کی چھان بین پہلے سے ہی جاری ہے۔
اشتہار
خبر رساں اداروں نے جرمن حکام کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (BAMF) کے متعدد دفاتر میں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر کارروائی کے عمل کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
جرمن اخبار بلڈ نے بیس مئی بروز اتوار اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ BAMF کی ملک بھر میں تیرہ برانچوں کو تفتيش ميں شامل کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ امکان ہے کہ ان دفاتر میں مہاجرین کو پناہ دینے کے عمل میں ’نامناسب طریقہ‘ اختیار کیا گیا ہے۔
رواں ہفتے ہی جرمن وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ اپنا کام انتہائی مستعدی اور بہتر طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا، جب اس ادارے کی بریمن کی برانچ میں ایک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔
بی اے ایم ایف کے ایک اہلکار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے غالباً رشوت لیتے ہوئے پناہ کے متلاشی کم ازکم بارہ سو افراد کو جرمنی میں پناہ کے قانونی دستاویزات جاری کیے۔
حکام کے مطابق اس کیس کی چھان بین کے سلسلے میں اسی دفتر کے دیگر پانچ اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ کچھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے غالباً رشوت لیتے ہوئے نامناسب طریقے سے پناہ کے یہ کاغذات جاری کیے۔
ان میں ایسے مہاجرین کو بھی پناہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جو سکیورٹی کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دیے گئے تھے۔ اس اسکینڈل کے تناظر میں جرمن وفاقی دفتر استغاثہ اپنی چھان بین کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
بلڈ نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ BAMF کی تیرہ دیگر برانچوں میں تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان دفاتر میں پناہ کی درخواستوں کی منظوری اور مسترد کیے جانے کی شرح بی اے ایم ایف کی دیگر برانچوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔
جرمن میڈیا نے بی اے ایم ایف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان نئی تحقیقات کے دوران پناہ کی تقریبا آٹھ ہزار درخواستوں کی مکمل پڑتال کی جائے گی۔ بی اے ایم ایف کی ڈائریکٹر یوٹا کوئرٹ نے جمعے کے دن ہی کہا تھا کہ آئندہ تین مہینوں کے دوران تقریبا اٹھارہ ہزار ایسے کیسوں پر بھی نظرثانی کی جائے گی، جن میں ان مہاجرین کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔