010811 Windenergie Deutschland
16 اگست 2011اس طرح سمندری ہوا توانائی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جرمن حکومت کی اُن پالیسیوں کو بھی آگے بڑھائے گی، جو ایٹمی تونائی سے دستبردار ہوتے ہوئے توانائی کے قابل تجدید ذرائع اختیار کرنے کے حوالے سے اختیار کی جا رہی ہیں۔
سمندر میں لہروں کے بیچوں بیچ آسمان کی طرف بلند ہوتے ہوئے دیو ہیکل کھمبوں پر نصب ساٹھ ساٹھ میٹر طویل پَروں والی پَوَن چکیاں ٹیلی وژن پر متاثر کن تصاویر پیش کرتی ہیں۔ ساحل سے دور سمندروں کے سینے پر نصب یہ چکیاں جرمنی کی توانائی کی بدلی ہوئی پالیسیوں کی عکاس ہیں۔
سن 2030ء تک ان چکیوں سے اُس سے زیادہ مقدار میں بجلی حاصل کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، جو کہ آج کل تمام ایٹمی بجلی گھروں سے مشترکہ طور پر حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم یہ منزل ابھی کافی دُور ہے۔ ابھی صرف جرمنی کے مشرق میں واقع سمندر میں ایک وِنڈ پارک نصب کیا گیا ہے جبکہ جرمنی سے شمال کی جانب ساحل سے کچھ دور سمندر میں دو وِنڈ پارکس زیرِ تعمیر ہیں۔
پون چکیوں کی تیاری اور اس توانائی سے استفادےکے اعتبار سے جرمنی کا شمار دُنیا کے صف اول کے ملکوں میں ہوتا ہے لیکن سمندروں میں وِنڈ پارکس کے حوالے سے جرمنی کافی پیچھے ہے۔ اب لیکن برلن حکومت نے اِس شعبےکے لیے بہت زیادہ مراعات کا اعلان کیا ہے۔
سمندروں میں مجموعی طور پر 26 وِنڈ پارکس کے لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں، جن کی تعمیر کے لیے جرمن ریاست کی جانب سے پانچ ارب یورو کے نرم شرائط والے قرضوں کے وعدے کیے گئے ہیں۔ چانسلر انگیلا میرکل کے خیال میں توانائی کے متبادل ذرائع میں ہوا سے حاصل کی گئی توانائی مرکزی کردار ادا کرے گی: ’’مستقبل میں توانائی کے شعبے میں توسیع اور ترقی کے حوالے سے خشکی پر اور سمندروں میں نصب کی جانے والی پون چکیاں مرکزی کردار ادا کریں گی۔‘‘
سمندروں میں وِنڈ پارکس کی تنصیب کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ وہاں ہوا کی رفتار زیادہ تیز ہوا کرتی ہے اور سماجی تنازعات قدرے کم ہوتے ہیں۔ خشکی پر پون چکیاں نصب کرنے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان پر لاگت کم آتی ہے۔
2010ء میں جرمنی میں نصب تقریباً 22 ہزار جدید پون چکیوں نے ملکی ضروریات کی چھ فیصد بجلی پیدا کی اور یہ ساری چکیاں وہ تھیں، جو خشکی پر نصب کی گئی تھیں۔ تاہم جیسے جیسے پون چکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے اِن کے خلاف عوام کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے قدرتی مناظر کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے اور چکیوں کے پروں کا سایہ اور اِن سے برآمد ہونے والا شور اُنہیں پریشان کرتا ہے۔ لوگ رات کے وقت ان کی چوٹیوں پر نصب جلتی بجھتی بتیوں کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔
تکنیکی اعتبار سے دو دو سو میٹر لمبے پروں والی پون چکیاں تیار کرنا بھی اب ممکن ہو چکا ہے، جنہیں کسی کھلی جگہ کی بجائے جنگلات کے بیچوں بیچ بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ تاہم برلن کے قریب Wandlitz کے جنگلات کے بچاؤ کی ایک انجمن سے وابستہ خاتون ژانا راڈانٹ کے خیال میں یہ کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ہو گا:’’ہم پون چکیوں کے نہیں بلکہ ایسے جنگلات میں اُن کی تنصیب کے خلاف ہیں، جن کی دراصل حفاظت کی جانی چاہیے۔ وانڈ لِٹس کے جنگلات پرانے بیچ کے درختوں کے ایسے جنگلات ہیں، جو جرمنی میں ویسے بھی کم ہیں۔‘‘
قدرتی تحفظ کے وفاقی جرمن محکمے کے مطابق ایک پون چکی کے لیے ایک ہیکٹر رقبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جرمنی کے رقبے کا تقریباً دو فیصد وِنڈ پارکس کے لیے موزوں ہے جبکہ ایک نہ ایک روز یہی پون چکیاں بجلی کی پینسٹھ فیصد ضروریات پوری کر سکیں گی۔
رپورٹ: بیرنڈ گریسلر / امجد علی
ادارت: شامل شمس