جرمنی میں پہلی مسلم وزیر
28 اپریل 2010جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں ترک نژاد ائیگل اوئزکان نے سماجی امور اورانضمام کی وزارت کا قلمدان سنبھال لیا ہے۔ وہ قدامت پسند کرسچئن ڈیموکریٹک یونین’سی ڈی یو‘ کی پہلی مسلم خاتون سیاستدان ہیں، جنہیں صوبائی سطح پر وزارت دی گئی ہے۔
ائیگل اوئزکان کے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل ہی ان کی ذات کے حوالے سے تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ ایک تنازعے کی وجہ ان کا وہ بیان بنا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اسکولوں میں مذہبی علامات کی موجودگی یا ان کے استعمال کے خلاف ہیں۔
بہت سے لوگوں نے اوئزکان کی اس سوچ کی حمایت کی ہے اور ان میں جرمنی میں ترک برادری کے ایک مرکزی نمائندے کینان کولات بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اوئزکان نے اپنے دل کی بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاتون وزیر کی طرح ان کا بھی یہی خیال ہے کہ اسکولوں میں مذہبی علامات یا نشانات استعمال نہ کئے جائیں۔ ان میں صلیب اور اسکارف سمیت سبھی کچھ شامل ہے۔ اس معاملے میں وہ مکمل طور سے خاتون وزیر کی حمایت کرتے ہیں۔
1995 میں جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ریاست اِن معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتی کہ دنیاوی حوالے سے کس کا نقطہء نظرکیسا ہے۔ جرمن عدالت کے اس فیصلے کے مطابق ریاست کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ حکم دے سکے کہ اسکولوں میں صلیبیں لٹکائی جانی چاہییں۔ اس فیصلے کے بعد ایسا بہت کم ہوا کہ جرمن اسکولوں کے کلاس رومز میں سے وہ صلیبیں ہٹا لی گئی ہوں، جو مسیحی مذہبی عقائد کی علامت کے طور پر وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔کولات کی رائے میں اس حوالے سے ائیگل اوئزکان نے دوبارہ ایک بہت اہم بحث شروع کی ہے۔
ترک نژاد جرمن سیاست دان ائیگل اوئزکان نوجوان، متحرک، قدامت پسند اورمسلمان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل ہیں۔ قدامت پسند اوربرلن میں حکمران جماعت کی رکن کے طور پر وہ اپنی پارٹی کو جرمنی میں آباد ترک برادری میں مقبول بنا سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ سی ڈی یو میں اسلام کے بارے میں ایک صحیح تصویربھی پیش کر سکتی ہیں۔ کرسچئن ڈیموکریٹک یونین نے ترک نژاد ائیگل اوئزکان کو ایک صوبائی وزارت دے کر جرمن سیاستدانوں کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں کرسچئن ڈیموکریٹس اپنے اس فیصلے پر خود بھی حیران اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک