جرمنی: پہیوں کے ساڑھے پانچ ہزار سال پرانے نشانات کی دریافت
15 اپریل 2022
شمالی جرمنی کے فلِنٹ بَیک نامی ایک چھوٹے سے علاقے میں دنیا کا قدیم ترین وہیل ٹریک دریافت کیا گیا ہے۔ ایک نئی سائنسی اشاعت سے پتا چلا ہے کہ پہیوں کے یہ نشانات تین ہزار چار سوسال قبل از مسیح کے دور کے ہیں۔
اشتہار
شمالی جرمنی کے فلِنٹ بَیک نامی ایک چھوٹے سے علاقے میں دنیا کا قدیم ترین وہیل ٹریک دریافت کیا گیا ہے۔ ایک نئی سائنسی اشاعت سے پتا چلا ہے کہ پہیوں کے یہ نشانات تین ہزار چار سوسال قبل از مسیح کے دور کے ہیں۔
بعض اوقات آثار قدیمہ کے ماہرین کو کسی دریافت کی تمام تر تفصیلات اور ان کی تاریخی گہرائیوں کا سائنسی طور پر جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ لیکن یکسوئی اور استقامت کے ساتھ کیے جانے والے اس کام کے نتائج بہت گراں قدر ہوتے ہیں۔ شمالی جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن کے ایک چھوٹے سے بلدیاتی علاقے فلِنٹ بَیک میں محققین نے 1976ء اور 1996ء کے درمیانی عرصے میں کھدائی کے دوران پہیوں کی بہت قدیم پٹڑیاں یا رستے دریافت کے تھے۔ یہ دریافت غیر معمولی حد تک سنسنی کا باعث بنی تھی۔ اب طویل تجزیاتی عمل کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس مقام پر دریافت ہونے والی پہیوں کی پٹڑیوں کے آثار دنیا میں اپنی نوعیت کے قدیم ترین نشانات ہیں۔‘‘
زمانہ تاریخ سے بھی پہلے کے دور کے علوم کی ایک جرمن مؤرخہ پروفیسر ڈاکٹر ڈورس مشکا نے اس کی تصدیق اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے۔ آثار قدیمہ کی اس کھدائی اور اس پر ہونے والی تحقیق کے نتائج ڈاکٹر مشکا نے شمالی جرمن شہر کیل کی کرسٹیان آلبریشت یونیورسٹی کے ساتھ مل کر ایک کتاب کی شکل میں شائع کیے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے پہیوں اور ٹھیلوں کی طرح کی سادہ گاڑیوں کے استعمال کے اب تک دریافت شدہ قدیم ترین شواہد کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
محققین کے لیے یہ جان لینا ہی کافی نہیں تھا کہ شمالی جرمنی میں دریافت ہونے والے یہ 'وہیل ٹریک‘ دنیا میں اپنی نوعیت کے قدیم ترین آثار ہیں بلکہ انہیں یہ معلوم کرنے میں بھی دلچسپی تھی کہ یہ آثار کتنے پرانے ہیں۔ اس کے لیے محققین نے ایک خاص شماریاتی طریقہ استعمال کیا اور اس کی مدد سے ماہرین یہ دکھا سکے کہ یہ وہیل ٹریک کس سال میں بنائے گئے تھے۔ اس ٹیم میں شامل ایک ماہر یوہانس میولر بتاتے ہیں، ''ان تاریخوں کو نئی دستاویز میں درج کیا گیا ہے۔‘‘ ان کے مطابق 'فلِنٹ بَیک ویگن وہیل ٹریک‘ کی تاریخ تقریباً تین ہزار چار سو قبل از مسیح کے دور کی ہے اور یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہیوں اور گاڑیوں کے استعمال کے قدیم ترین شواہد ہیں۔
فلِنٹ بَیک کہاں ہے؟
فلِنٹ بَیک کیل شہر سے تقریباً 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پتھر کے زمانے اور پھر کانسی کے دور کی درجنوں قبروں کی یادگاریں ہلالی شکل والے اس چھوٹے سے بلدیاتی علاقے کے بالکل قریب موجود ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں 1976ء اور 1996ء کے درمیانی عرصے میں کھدائی کی گئی تھی۔ یہاں کئی قبروں کی باقیات ہیں اور یہیں پہیوں کی پٹڑیاں دریافت کی گئیں۔ یہ جگہ یورپ بھر میں سب سے بڑے اور بہت بھاری پتھروں سے تعمیر شدہ قبرستانوں میں سے ایک میں واقع ہے۔
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے محققین یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ یہ علاقہ تقریباً 5800 سال پہلے اولین تدفین کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں بہت لمبی قبریں بنانے کا رواج تھا اور انہیں مستطیل یا trapezoidal یعنی پہاڑی کی شکل میں تدفین کے مقامات کہا جاتا تھا۔ ان میں بعد ازاں مسلسل توسیع ہوتی رہی۔ اس ابتدائی مرحلے کے دوران انسانوں کی تدفین کے لیے پتھر کے چھوٹے چھوٹے چیمبرز والے ٹیلے بنائے جاتے تھے۔
تین ہزار تین سو سال قبل از مسیح کے زمانے تک فن تعمیرات میں کافی تبدیلی آ چکی تھی۔ تب مرنے والوں کو گزرگاہوں میں بنی قبروں میں دفن کیا جاتا تھا، پتھر کے بڑے بڑے کمرے جن کے داخلی دروازے بھی پتھر کے بنے ہوئے ہوتے تھے، آنے والی کئی صدیوں تک اجتماعی تدفین کے مقامات کے طور پر کام آتے رہے۔ اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے وہاں بنائی گئی قبروں کی تعمیر کے دور کا تعین آرگینک مٹیریل کے سائنسی تجزیوں سے کیا۔
اشتہار
کیا پہیہ بھی وہیں ایجاد ہوا تھا؟
جرمن مؤرخہ پروفیسر ڈاکٹر ڈورس مشکا کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس سوال کا جواب نہیں ہیں کہ پہیہ پہلی مرتبہ کہاں ایجاد ہوا تھا۔ اس بات کو تاہم رد نہیں کیا جا سکتا کہ شمالی جرمنی کے اسی علاقے میں بہت قدیم اور سادہ سی گاڑیوں کے پرانے رستے بھی دریافت ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مشکا کہتی ہیں، ''اس امر کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہاں گزشتہ کئی ہزار برسوں کے دوران چیزوں کے قدرتی طور پر محفوظ رہنے کے لیے حالات کس حد تک سازگار تھے۔‘‘
ڈاکٹر مشکا نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا، ''ایسے آثار بھی ملتے ہیں جو پرانے ہو سکتے ہیں اور یہ نمی والے علاقوں کی اس دور میں بسائی گئی بستیوں میں وہیل ٹریکس کا پتا دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سوئٹزرلینڈ میں ایسے آثار موجود ہیں، جو اور بھی زیادہ قدیم ہوسکتے ہے۔‘‘
وہ کہتی ہیں کہ ایسے کئی علاقے ہیں جنہیں قدیم انسانی تہذیبوں میں پہیے کی ایجاد کا ممکنہ مقام سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بحیرہ اسود یا میسوپوٹیمیا کے شمال میں واقع میدانی علاقے اور جنوب مشرقی اناطولیہ میں دریائے فرات اور دجلہ کے آس پاس کا علاقہ بھی اس زمرے میں آ سکتا ہے۔
جرمنی میں آثار قدیمہ کی تیرہ نایاب دریافتیں
برلن میں آثار قدیمہ کی ایک نمائش میں یورپ میں ارتقاء کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی نایاب قدیمی نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ایسے آثار قدیمہ شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جو جرمنی ہی میں دریافت ہوئے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
’تصوراتی‘ آسمان
یہ سکہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں ایک اہم دریافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سکے پر آسمان کی ایک تصویر کندہ ہے۔ کائناتی مظہر کی یہ تصوراتی نقش نگاری آسمانی رازوں کی قدیم ترین تصویر کشی ہے۔ دھات کا یہ سکہ صوبے سیکسنی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران 1999 میں ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ نیبرا نامی یہ سکہ کم از کم 36 سو سال پرانا ہے۔ اس پرنقش کائناتی مظاہر دراصل اُس وقت کے مذہبی عقائد کی دلالت کرتے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیم ترین انسانی صورت گری
یہ قدیمی نمونہ سن 2008 میں جنوب مغربی جرمنی میں ایک غار سے دریافت کیا گیا۔ Venus of Hohle Fels نامی یہ فن پارہ انسانی صورت گری کا قدیم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی قریب چھ سینٹی میٹر کی اس انسانی شبیہ کے بارے میں یقین ہے کہ یہ تب تعویز کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ 40 ہزار سال پرانی ہے۔ یوں قبل از تاریخ کے عہد کا یہ نمونہ قدیم ترین معلوم انسانی صورت گری قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Urgeschichtliches Museum Blaubeuren/J. Wiedmann
دیو قامت کلاہ
برلن میں جاری Restless Times: Archaeology in Germany نامی اس نمائش میں یہ طلائی کلاہ بھی رکھا گیا ہے۔ برنجی دور میں تخلیق کی گئی سونے کی چار ٹوپیوں میں سے تین برلن کی اس نمائش میں موجود ہیں۔ انہیں ایک ہزار سال قبل کے دور کے دیوتاؤں کی علامتوں اور خصوصیات سے منسلک کیا جاتا ہے، جو تب وسطی یورپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی مقدس تھے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/C. Plamp
کولون کا خزانہ
جرمنی سے دریافت ہونے والے ہزاروں قدیمی نوادرات پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔ شہر کولون سے ملنے والے یہ دیے بھی برنجی دور کے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق رومن سلطنت نے پہلی صدی عیسوی میں کولون میں ایک نئی آبادی بسائی تھی، جو تجارتی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ سن دو ہزار سات میں اسی شہر سے رومن دور کی ایک کشتی بھی دریافت ہوئی تھی، جس کی عمر انیس سو سال بنتی ہے۔
تصویر: Römisch-Germanisches Museum der Stadt Köln; Foto: Axel Thünker, DGPh
کیلٹک شہزادی کا راز
برلن کے Gropius Bau Museum میں جاری نمائش میں یہ زیور بھی موجود ہے۔ جرمنی کے شمالی شہر ہیربرٹنگن میں سن دو ہزار دس کے اختتام پر کیلٹک شہزادی کا ایک مقبرہ دریافت ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہاں کانسی اور سونے کے بنے زیوارات بھی ملے تھے، جن سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بھی یورپ اور دیگر خطوں کے مابین تجارت ہوتی تھی۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Stuttgart/Y. Mühleis
قبروں میں پوشیدہ رومن آسائشیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہالٹرن میں رومن دور کا ایک مخصوص مقبرہ دریافت کیا گیا تھا۔ اس مقبرے سے ایک شخص کی جسمانی باقیات کے علاوہ ایک ایسا بیڈ بھی ملا تھا، جو اس دور میں مُردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیڈ اٹلی سے جرمنی منتقل کیے گئے تاکہ کسی رومن شہری کی موت کے بعد بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جا سکے۔ دریافت شدہ یہ بیڈ ایک ہزار نو سو سال پرانا ہے۔
تصویر: LWL-Archäologie für Westfalen/S. Brentführer
پتھر کے زمانے کی ’سوئس چھری‘
یہ اوزار انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ یہ چھری یا کلہاڑی نما آلہ افریقہ میں دو ملین برس پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ یورو ایشیائی ممالک میں البتہ اس اہم اوزار کی تاریخ چھ لاکھ برس سے زائد پرانی نہیں۔ یہ اوزار دراصل کاٹنے، مکس کرنے، مارنے یا پھینکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والا یہ پتھریلا اوزار 35 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: Archäologisches Museum Hamburg
آگ کے طوفان پر سواری
یہ کانسی کا بنا چھوٹا سا مجسمہ ان گیارہ مجسموں میں سے ایک ہے، جو سن دو ہزار دس میں برلن میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ نازی دور حکومت میں ان مجسوں کو میوزیم سے اٹھا لیا گیا تھا اور ایک ڈپو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کی حدت اور تباہی نے اس مجسمے کے رنگ و روغن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
تصویر: Museum für Vor- und Frühgeschichte Berlin/A. Kleuker
یورپ کا قدیم ترین میدان جنگ
سن انیس سو نوے کے اواخر میں جرمن صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں دریائے ٹولینزے کے کناروں پر جاری آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں انسانی ہڈیاں اور مختلف قسم کے ہتھیار ملے تھے۔ اس مقام کو یورپ کا قدیم ترین جنگی میدان قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہونے والے جنگی معرکے میں دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شریک ہوئے تھے۔ اس میدان جنگ سے ملنے والی اشیا 33 سو برس پرانی ہیں۔
تصویر: Landesamt für Kultur und Denkmalpflege Mecklenburg-Vorpommern
جادوئی لیبارٹری
سن دو ہزار بارہ میں جرمن شہر وِٹن برگ میں ایک مکمل لیبارٹری دریافت کی گئی تھی۔ اس قدیمی لیبارٹری میں وہ تمام اہم آلات ملے، جو تجربہ گاہوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ دریافت کے وقت اس لیبارٹری سے ملنے والے آلات اور برتن چھوٹے چھوٹے حصوں میں ٹوٹے ہوئے تھے۔ تاہم جب ماہرین نے انہیں جوڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو یورپ کی پہلی سائنسی تجربہ گاہ تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ سن پندرہ سو بیس تا پندرہ سو چالیس کے دور کی ہے۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege und Archäologie Sachsen-Anhalt/J. Lipták
قدیمی سامان آرائش
جنوبی جرمن علاقے میں واقع جھیل کونسٹانس کے قریب ہی یہ قدیمی نمونہ ملا۔ اندازہ ہے کہ یہ نئے سنگی دور کا ہے۔ مٹی کے پلاسٹر پر بنائی گئی یہ تخلیق اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسان چار ہزار سال قبل از مسیح بھی اپنے گھروں کو مختلف طریقوں سے سجاتے تھے اور ان کے آرائش کرتے تھے۔ اس نمونے میں دراصل اس زمانے کے خداؤں اور روایات کے مطابق گھر کو محفوظ بنانے والے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
تصویر: Landesamt für Denkmalpflege Hemmenhofen/M. Erne
’یسوع مسیح قبر میں‘
قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک مقدس مقامات کی زیارتوں کے دوران ان نمونوں کو بطور بیج یا زیبائش کے لیے اپنے بدن پر سجاتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان بیجز کی مقدس حیثیت کی وجہ سے انہیں قبروں تک بھی لے جاتے تھے۔ یہ قدیمی بیج ہاربرگ (موجودہ جرمن شہر ہیمبرگ کا ایک علاقہ) سے ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایسی عبادتی علامتیں تیرہویں اور چودہویں صدی میں اس علاقے میں لائی گئی تھیں۔ اس بیج میں ’یسوع مسیح گدھے پر سوار‘ ہیں۔
تصویر: Archäologisches Museum
Hamburg
نو سو گرام چاندی
سن دو ہزار پانچ میں ایک کوہ پیما نے اپر لوساتیا میں اپنی ایک مہم کے دوران اتفاق سے چاندی کے یہ سکے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکے گیارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ تجارتی عمل کے دوران یہ چاندی کے سکے دنیا کے مختلف علاقوں سے یورپ پہنچے، حتیٰ کہ کچھ سکے تو بغداد سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ باقاعدہ کرنسی کی ایجاد سے قبل یہی سکے خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتے تھے
تصویر: Landesamt für Archäologie Sachsen/U. Wohmann