1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

231112 Ältere Arbeitnehmer

Kishwar Mustafa27 نومبر 2012

بڑھاپے کے ساتھ غربت کا خوف یا سماجی زندگی میں حصہ لینے کا شوق؟ طویل عرصے تک پیشہ ورانہ زندگی میں فعال رہنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔

تصویر: tina7si/Fotolia.com

ایک امر تو یقینی ہے وہ یہ کہ جرمنی میں دیر سے ریٹائر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی اشتراک عمل اور ترقی کی تنظیم OECD کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جرمنی میں 60 سے 64 سال کی عمر تک کام کرنے والوں کی شرح 21,4 فیصد سے بڑھ کر 44,5 فیصد ہو گئی ہے۔ اس اعتبار سے OECD کے ممبر ممالک میں جرمنی کا شمار چوٹی کے ملکوں میں ہوتا ہے۔

باس سے نمٹنا، پروجیکٹس کی ڈیڈ لائین تک کام ختم کرنا، تھکا دینے والی کانفرنسوں میں حصہ لینا، ملازمت پیشہ معمر افراد نے گزشتہ دس برسوں کے دوران کیا کچھ کیا ہو گا اور ان کے ذہنوں میں کس طرح کی چیزیں بس گئی ہوں گی کہ جس کی وجہ سے وہ مزید یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جرمنی میں 60 سے 64 سال کی درمیانی عمر کے ملازمت پیشہ افراد کی تعداد 2001ء کے مقابلے میں دگنی ہے۔ ایسے ہی دو جرمن باشندے برنہارڈ سویٹیسکی اور کلاؤس فون ہالٹ ہیں۔ دونوں 60 سال سے زیادہ عمر کے ہیں اور دونوں ہنوز اپنے پیشے سے منسلک ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ملازمت سے خوش اور مطمئن ہیں۔

اکثر معمر خواتین بھی پیشے سے منسلک رہنا چاہتی ہیںتصویر: picture alliance/chromorange

کلاؤس فون ہالٹ کہتے ہیں،’عام طور پر معمر ملازمت پیشہ افراد میں اس قسم کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے مرحلے میں داخل ہوتے ہی بڑی مد میں کٹوتیاں شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک ممکن ہو، اپنی روٹی روزی سے منسلک رہیں۔‘

تاہم کلاؤس فون ہالٹ کا ایک مدعا اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ اس امر کو افسوسناک سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو کہیں بروئے کار نہ لا سکیں۔ چند ہفتے قبل 62 سالہ کلاؤس فون ہولٹ کو اعصابی نقائص سے متعلق بیماریوں کی تحقیق کے ایک ادارے DZNE میں محدود مدت پر محیط کانٹریکٹ مل گیا۔

جرمنی میں پینشن کی عمر کو پہنچنے والے افراد جاب سینٹر سے کام لے کر خود کو مصروف رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

برنہارڈ سویٹیسکی کلاؤس سے دو سال بڑے ہیں۔ یعنی ان کی عمر 64 سال ہے۔ وہ شہر بون میں قائم ملازمتیں فراہم کرنے والی ایک ایجنسی میں مشیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ لیکن ان کی اہلیہ صحت سے مجبور ہونے کے سبب دیکھ بھال کی محتاج ہیں، اس لیے وہ فُل ٹائم جاب نہیں کرتے۔ بلکہ ہفتے میں کُل 19 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’میں آئندہ برس جون میں ریٹائر ہو جاؤں گا۔ مجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ میں اعزازی طور پر کام کر رہا ہوں۔ سماجی اور ذاتی طور پر ایک اچھے نیٹ ورک سے منسلک ہوں۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے لیے دن گن رہا ہوں۔ میں اپنا کام بہت شوق سے کرتا ہوں‘۔

جرمنی میں 1960ء سے اب تک اوسط متوقع عمر میں 10 سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس حساب سے وہ مدت بھی طویل تر ہو گئی ہے، جس میں لوگ سرے سے کوئی کام نہیں کرتے۔ ساتھ ہی اس یورپی ملک میں شرح پیدائش میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

B.Rayna/B.Henrik/km/aa

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں