جرمن شہر نیورمبرگ میں چاقو کے حملوں سے زخمی ہونے والی تین خواتین کی ایمرجنسی سرجری کی گئی ہے۔ جرمن ریاست باویریا کے اس شہر میں یہ تینوں خواتین چاقو سے کیے جانے والے تین مختلف حملوں میں زخمی ہوئیں۔
اشتہار
نیورمبرگ پولیس کے مطابق ممکنہ طور پر یہ حملے ایک ہی شخص نے کیے ہیں جس کی تلاش جاری ہے۔ جمعرات 13 دسمبر کی شب نیورمبرگ میں چاقو کے حملوں کا نشانہ بننے والی خواتین کو شدید زخم آئے ہیں اور جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں تاہم اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کہ ان تینوں حملوں کا ذمہ دار ایک ہی شخص ہے۔
یہ حملے جمعرت کی شام مقامی وقت کے مطابق شام سات بجکر بیس منٹ سے لے کر رات نصف شب تک نیورمبرگ کے علاقے سینٹ جوہانس میں کیے گئے ہیں۔ ان حملوں کا نشانہ بننے والی خواتین کی عمر 56, 34 اور 26 برس ہیں۔ حملوں کے بعد ان خواتین کو فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں تینوں کی سرجری ہوئی۔ ان کی حالت کے بارے میں مزید اطلاعات ابھی دستیاب نہیں۔
پولیس کے مطابق تینوں متاثرہ خواتین نے حملہ آور کے بارے میں کسی حد تک مختلف معلومات فراہم کی ہیں۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کی عمر 25 سے 30 برس کے درمیان ہو سکتی ہے جبکہ اس کا قد پانچ فٹ نو انچ سے پانچ فٹ گیارہ انچ کے درمیان ہے۔
ا ب ا / ع ت (خبر رساں ادارے)
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔