جرمنی میں چھوٹا چین: 28 فیصد آبادی اور سینکڑوں کمپنیاں چینی
10 اکتوبر 2018
جرمنی میں عرف عام میں ’چھوٹا چین‘ کہلانے والے ایک گاؤں کی اٹھائیس فیصد آبادی چینی باشندوں پر مشتمل ہے۔ سینکڑوں چینی کاروباری اداروں والے اس جرمن گاؤں کی ساڑھے تین ہزار کی آبادی میں ایک ہزار چینی باشندے بھی شامل ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے کُل سولہ وفاقی صوبوں میں سے ملک کے مغرب میں واقع رائن لینڈ پلاٹینیٹ نامی صوبے کے اس گاؤں کا نام ہَوپ شٹَیٹن وائیرزباخ (Hoppstädten-Weiersbach) ہے۔ چین کے بیرون ملک سرمایہ کاری کے خواہش مند ژانگ جیان شِن نامی بزنس مین جب پہلی بار اس جرمن گاؤں میں آئے تھے تو ان کو شبہ ہونے لگا تھا کہ جیسے ان کے ساتھ سرمایہ کاری کے مواقع کے نام پر کوئی دھوکا ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ اس گاؤں میں پہنچے تھے، تو ان کے بقول وہاں اگی ہوئی جنگلی گھاس مقامی باشندوں کے قد کاٹھ سے بھی اونچی تھی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کا یہ خدشہ غلط ثابت ہوا تھا۔
ژانگ جیان شِن اور کاروباری شعبے سے وابستہ ان کے 11 ساتھی چینی باشندوں نے فی کس ایک ایک ملین یوآن (قریب سوا لاکھ یورو یا ایک لاکھ تینتالیس ہزار ڈالر) کے عوض اپنے لیے یہ مواقع حاصل کیے تھے کہ انہیں اس گاؤں میں رہائشی فلیٹ دیے جائیں گے اور مقامی حکومت کے اہلکار ان کی رہائشی اجازت ناموں کے حصول اور ان کے کاروباری اداروں کی مقامی سطح پر رجسٹریشن کے عمل میں ان کی مدد بھی کریں گے۔ آج ان اولین چینی باشندوں کی اس جرمن گاؤں میں آمد کو چھ برس ہو چکے ہیں اور نتیجہ یہ کہ اب مجموعی طور پر ساڑھے تین ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں چینی باشندوں کی تعداد کم از کم بھی ایک ہزار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گاؤں کی 28 فیصد سے زائد آبادی انہی چینی باشندوں پر مشتمل ہے۔
اس طرح ہَوپ شٹَیٹن وائیرزباخ تقریباﹰ یقینی طور پر جرمنی کا ایک ایسا بلدیاتی علاقہ ہے، جہاں تارکین وطن چینی باشندوں کا تناسب ملک کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اس گاؤں اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے بہت سے مقامی لوگ اب اس گاؤں کو ’جرمنی میں چھوٹا چین‘ بھی کہنے لگے ہیں۔
جرمن کار سازی کی صنعت
جرمنی کو عالمی سطح پر بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس ملک کی کاروں کو اقوام عالم میں پسند کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا پائیدار انجن خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Gou Yige/AFP/Getty Images
جرمن کاروں کی مقبولیت
جرمنی کی کارساز صنعت کے مختلف برانڈز ہیں، جنہیں مختلف ممالک کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ان میں مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، پورشے، آؤڈی، فولکس ویگن خاص طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
نوجوان نسل آؤڈی کو زیادہ پسند کرتی ہے
کسی دور میں جرمن عوام میں مرسیڈیز گاڑی کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، ایسا آج بھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں نوجوان نسل کو آؤڈی گاڑی نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے۔
تصویر: J. Eisele/AFP/Getty Images
پورشے
جرمن ساختہ پورشے کو لگژری کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل دنیا بھر کی اشرفیہ میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ڈیزل گیٹ اسکینڈل
تقریباً دو برس قبل فوکس ویگن کاروں سے دھوئیں کے اخراج کا اسکینڈل سامنے آیا۔ یہ اسکینڈل عالمی سطح پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران اس کی لپیٹ میں کئی کار ساز ادارے آ چکے ہیں۔
سن 2016 اور سن 2017 میں کاروں کی عالمی امپورٹ میں جرمنی کا حصہ بائیس فیصد تھا۔ یہ کاریں بنانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Simon
مرسیڈیز: جرمنی کی پہچان
جرمنی سمیت دنیا بھر میں مرسیڈیز گاڑی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مرسیڈیز موٹر کار کو جرمنی کی ایک پہچان بھی سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Wang Zhao/AFP/Getty Images
چینی باشندے جرمن گاڑیوں کے دیوانے
جرمن کار صنعت کے لیے چین بھی اب بہت اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ چین میں تیس فیصد کاریں جرمنی سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ چینی خریداروں میں کم اخراج کی حامل گاڑیوں کو بہت زیادہ پسند کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance
ماحول دوست کاری سازی
جرمنی میں بتدریج ماحول دوست کاروں کو پسندیدگی حاصل ہو رہی ہے۔ جرمن ادارہ ڈوئچے پوسٹ نے ترسیل کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔
تصویر: Deutsche Post AG
8 تصاویر1 | 8
اس بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ اس جرمن گاؤں کی صرف 28 فیصد سے زائد آبادی ہی چینی نہیں بلکہ اسی گاؤں میں ان چینی باشندوں کے چھوٹے اور درمیانے سائز کے 300 کے قریب کاروباری ادارے بھی باقاعدہ رجسٹر ہو چکے ہیں۔
اس کامیابی کا سہرا کافی حد تک ایک چینی کاروباری خاتون جین ہُو اور ان کے جرمن شریک حیات آندریاز شولس کے سر جاتا ہے، جنہوں نے شروع میں ان چینی کاروباری افراد کو جرمنی آنے کی ترغیب دی۔ جین ہُو اور آندریاز شولس کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں جرمنی میں یہ ’چھوٹا چین‘ پورے یورپ میں چینیوں کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا۔
ہَوپ شٹَیٹن وائیرزباخ میں رہنے والے چینی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو امید ہے کہ آئندہ پانچ سے لے کر سات برسوں میں مزید سینکڑوں چینی تاجر اس جرمن گاؤں کا رخ کریں گے۔ اسی لیے اب اس گاؤں میں 12 ایسی بڑی بڑی رہائشی عمارات بھی تعمیر کی جا رہی ہیں، جن میں 500 تک سرمایہ کار اور ان کے اہل خانہ رہ سکیں گے۔
دنیا بھر میں جرمن تعمیراتی شاہکار
چین میں بوٹینیکل گارڈن سے لے کر سعودی عرب میں نیشنل لائبریری کی عمارت تک، جرمن تعمیراتی شاہکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان تعمیرات کے بارے میں ایک نمائش ’کنٹیمپریری آرکیٹیکچر۔ میڈ ان جرمنی‘ پیرس میں جاری ہے۔
تصویر: RSAA
سعودی عرب: عدالتی کمپلیکس
البرٹ اسپیئر اور ان کے ساتھیوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں میونسپل حکومت کی بہت سی تعمیرات ڈیزائن کی ہیں۔ انہی میں 2005ء میں تعمیر کیا جانے والے یہ چوکور ڈیزائن والا کورٹ کمپلیکس بھی شامل ہے۔
تصویر: Albert Speer & Partners
روس: کثیر المقاصد میڈیکل سینٹر
جرمن کمپنی نکِل اینڈ پارٹنرز نے سینٹ پیٹرز برگ میں یہ میڈیکل سینٹر تعمیر کیا ہے جس میں ہسپتال کے علاوہ ریسرچ سینٹرز اور اسٹاف اور محققین کے رہائشی علاقے بھی شامل ہیں۔ فوجی اور سول مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا یہ سینٹر 2013ء میں مکمل ہوا۔
تصویر: Nickl & Partner Architekten AG
چین: چِن شان بوٹینیکل گارڈن
چینی شہر شنھگائی میں 2010ء میں ہونے والی ایکسپو میں 207 ہیکٹر رقبے پر محیط یہ بوٹینیکل گارڈن تعمیر کیا گیا۔ اس کو میونخ سے تعلق رکھنے والے آؤر ویبر نے ڈیزائن کیا۔ بوٹینیکل گارڈن میں دراصل دنیا کے مختلف خطوں کے پودوں، پھولوں اور درختوں کو اگایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Christoph Mohr
ایتھوپیا: سولر کیوسک
ایتھوپیا کے جنوبی حصے میں شمسی توانائی سے روشن یہ چھوٹی سے دکان 2012ء میں جرمن کمپنی گرافٹ آرکیٹیکس کی طرف سے تیار کی گئی۔ اس کی چھت پر سولر پینل نصب ہیں اور اس کی مدد سے مقامی لوگوں کو کاروبار کے مواقع میسر آئے۔ یہ کیوسک ایک مکمل کِٹ کی شکل میں آتا ہے اور اس کے حصوں کو جوڑ کر اسے بہت کم وقت میں تیار کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Georg Schaumberger
سعودی عرب: کنگ فہد نیشنل لائبریری
سعودی دارالحکومت ریاض میں شاہ فہد نیشنل لائبریری ’کیربرٹ آرکیٹیکس‘ کی طرف سے 2013ء میں تعمیر کی گئی۔ اس عمارت میں مقامی تعمیراتی اسٹائل کو بھی سمویا گیا ہے۔
تصویر: DAM2014/C. Richters
قزاقستان: ویسنووکا ہاؤسنگ کمپلیکس
چھ عمارات پر مشتمل یہ رہائشی کمپلیکس الماتے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ براؤن شلوکرمان ڈریسن کی طرف سے تیار کردہ اس کمپلیکس کی تیاری میں اکثر آنے والے زلزلوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ 2010ء میں مکمل کیے جانے والے اس کمپلیکس میں دو 16 منزلہ اور چار نو منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگز شامل ہیں۔
تصویر: Braun Schlockermann Dreesen
چین: نیشنل لائبریری
12 ملین کتابوں کے گھر اور 2000 بُک ریڈرز کے لیے بیجنگ میں چین کی نیشنل لائبریری میں توسیع کا کام فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے کے ایس پی یُرگن اینگل کے لیے ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ 2008ء میں مکمل ہونے والی اس عمارت میں پرانے اور نئے کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/landov/J. Liangkuai
منگولیا: میدار شہر
منگولیا کے درالحکومت اُلنبتار کے جنوب میں یہ شہری منصوبہ ابھی نامکمل ہے۔ اس کے مرکز میں بودھا کا 54 میٹر بلند مجسمہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس شہری علاقے میں کار چلانے کی اجازت نہیں ہو گی اور یہ ماحول دوست ہے۔ کولون کے RSAA آرکیٹیکس کا یہ منصوبہ 2016ء میں مکمل ہو گا۔
تصویر: RSAA
8 تصاویر1 | 8
وفاقی صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کا یہ گاؤں، جو فرینکفرٹ میں جرمنی کے مصروف ترین ہوائی اڈے سے ہائی وے کے ذریعے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، ماضی میں ایسی صورت حال کا شکار تھا کہ وہاں سے مقامی نوجوان اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع کی خاطر ملک کے دوسرے علاقوں کا رخ کرتے تھے اور علاقائی سطح پر معیشت کی صورت حال بھی بہت تسلی بخش نہیں تھی۔
گزشتہ چھ برسوں میں لیکن اس گاؤں میں اتنی تبدیلی آ چکی ہے کہ اب وہاں پر سینکڑوں نئے کاروباری ادارے رجسٹر ہو چکے ہیں، جو اپنے اور مقامی معیشت دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔
اس جرمن گاؤں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں وہاں جرمنی میں تعینات امریکی فوجی دستوں کا ایک اڈہ بھی تھا اور ان فوجیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ان کے اہل خانہ بھی وہیں رہتے تھے۔ لیکن 1990 کی دہائی کے وسط میں جب یہ امریکی فوجی اڈہ بند کر دیا گیا، تو وہاں بہت سے رہائشی کمپلیکس خالی ہو گئے تھے۔
طویل المدتی بنیادوں پر بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جن چینی کاروباری حلقوں کو وہاں آنے اور کاروبار کرنے کی دعوت دی گئی، وہ ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا ہے، جس کے ثمرات میں مستقبل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
م م / ا ب ا / اے ایف پی
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔