1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ڈھائی ملین بچے ’غربت‘ کا شکار

10 اپریل 2013

نہ کھلونوں کے لیے کوئی رقم نہ ٹیوشن کے لیے مالی وسائل۔ جرمنی میں غربت کے مسئلے کا سب سے زیادہ شکار بچے اور نوجوان ہیں۔ لیکن یہ غربت کم عمر افراد کے لیے اس وقت اور بڑا مسئلہ بن جاتی ہے جب ان کے والدین حوصلہ ہار جاتے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں بچوں کے تحفظ کی وفاقی تنظیم جرمن چلڈرن پروٹیکشن فیڈریشن (GCPF) کے اعداد و شمار کے مطابق 82 ملین سے زائد کی آبادی والے یورپی یونین کے اس سب سے بڑے رکن ملک میں اس وقت قریب 2.5 ملین بچے ایسے ہیں، جنہیں غربت کا سامنا ہے۔

تارکین وطن کے گھرانوں میں ہر چوتھا بچہ غربت کا شکار ہےتصویر: AP

وفاقی حکومت کی بچوں اور نوجوانوں سے متعلق رپورٹ کے مطابق ملک میں 11 اور 20 برس کے درمیان کے عمروں والے شہریوں میں سے 15.2 فیصد ایسے ہیں جو غربت کا شکار ہیں۔

ان میں سے بھی مالی تنگدستی سے سب سے زیادہ متاثر بچوں اور نوجوانوں کا تعلق تارکین وطن کے پس منظر والے گھرانوں سے ہوتا ہے۔ جرمنی میں تارکین وطن کے گھرانوں کے بچوں میں سے ہر چوتھا نابالغ شہری غربت کا سامنا کر رہا ہے۔

جرمنی میں غربت کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس بات کی بھی درست تعریف کی جائے کہ غربت کہتے کس کو ہیں۔ یعنی صنعتی طور پر ترقی یافتہ جرمنی جیسے ملک میں اگر کسی شہری کو غربت کا شکار سمجھا جاتا ہے، تو اس کا پیمانہ کیا ہے؟

جرمنی سمیت یورپ میں غربت کی تعریف صرف تقابلی سطح پر ہی کی جا سکتی ہے۔ جرمنی میں غربت کا موازنہ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا میں نیپال یا افریقہ میں صومالیہ جیسے کسی ملک میں نظر آنے والی غربت یا مالی محرومی سے نہیں کیا جا سکتا۔

وفاقی جرمنی میں غربت کی تعریف متعلقہ افراد یا خاندانوں کی آمدنی کی ملکی آبادی کی ماہانہ بنیادوں پر اوسط آمدنی سے تقابلی جائزے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ برلن میں وفاقی حکومت کی تیار کردہ بچوں اور نوجوانوں سے متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق کسی بچے یا بچوں کو غربت کا شکار اس وقت سمجھا جاتا ہے جب وہ ایسے گھرانوں میں پرورش پا رہے ہوں، جن کی کُل ماہانہ آمدنی ملکی اوسط کے 50 فیصد سے بھی کم ہو۔

جرمنی میں غربت کا موازنہ تیسری دنیا کے ملکوں میں غربت سے نہیں کیا جا سکتاتصویر: Getty Images

دوسرے لفظوں میں جرمنی میں دو بچوں والے کسی بھی ایسے گھرانے کو غربت کا شکار سمجھا جاتا ہے، جس کی ٹیکس کی ادائیگی کے بعد مجموعی ماہانہ آمدنی 1640 یورو سے کم ہو۔

سب سے زیادہ آبادی والے وفاقی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی بچوں اور نوجوانوں کی امدادی تنظیم کی ایک خاتون اہلکار Ute Projahn کہتی ہیں کہ ایک سماجی فلاحی ریاست کے طور پر جرمنی میں ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کا ایک بہت فعال ریاستی ڈھانچہ موجود ہے۔

اُوٹے پروژان کے مطابق، ’ہم دراصل ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کافی سرمایہ موجود ہے۔ اور ایسے خاندان، جن کے پاس مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے اور جو زیادہ آمدنی پر خوش ہی ہوں گے، ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا بھی مکمل نظام موجود ہے‘۔

لیکن بہت سے سماجی ماہرین کے مطابق یہ بات اپنی جگہ ضروری ہے کہ جرمنی میں غربت کے شکار خاندانوں اور ان کے ارکان کی مالی حالت اتنی بہتر بنائی جانی چاہیے کہ بہتر مستقبل کے لیے آج کے بچوں اور نوجوانوں کی تمام جائز مالی ضروریات باآسانی پوری کی جا سکیں۔

A. Peters, mm / J. Schmeller, ia

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں