جرمنی میں کتنے تارکین وطن غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں؟
شمشیر حیدر14 ستمبر 2016
گزشتہ ماہ ایک جرمن عوامی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک بھر میں قریب تین لاکھ تارکین وطن غیر قانونی طور پر ملازمت کر رہے ہیں تاہم جرمن ٹریڈ یونین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں بلا اجازت اور غیر قانونی طور پر کام کرنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی تعداد اندازوں سے کافی کم ہے۔ این ڈی آر نامی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جرمنی میں تین لاکھ تارکین وطن کے غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ جس تحقیقی مطالعے کی بنیاد پر یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی، ماہرین اسے ناقص قرار دے رہے ہیں اور ان کے مطابق یہ رپورٹ حقیقی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتی۔
تارکین وطن کے غیر قانونی طور پر کام کرنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کے بارے میں اعداد و شمار کے بارے میں جرمن ٹریڈ یونین سے تعلق رکھنے والی ایمیلیا میترووچ کا کہنا تھا، ’’میڈیا میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار بالکل بے بنیاد ہیں اور ملک میں (غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کی) تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
میڈیا میں جس تحقیقی مطالعے کے بنیاد پر ان اعداد و شمار کا ذکر کیا جا رہا ہے اسے دو جرمن یونیورسٹیوں سے وابستہ محققین نے تیار کیا تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تین مختلف جرمن شہروں میں موجود پناہ گزینوں کے مراکز میں رہائش پذیر تارکین وطن کا سروے کیا تھا۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس تحقیق کے لیے سائنسی، منظم اور معروضی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ جرمن جریدے ’زائٹ‘ سے وابستہ ایک محقق کے مطابق، ’’تحقیق کے لیے جس نمونے کا انتخاب کیا گیا ہے وہ نہ تو درست ہے اور نہ ہی مجموعی طور پر تارکین وطن کی نمائندگی کرتا ہے۔ تحقیق کے لیے ایک غیر روایتی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جس سے حقیقی صورت حال کی بجائے قیاس آرائی پر مبنی نتائج سامنے آئے ہیں۔‘‘
این ڈی آر نے اپنے رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی تھی کہ تارکین وطن کے غیر قانونی طور پر کام کرنے کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ جس تحقیق کا حوالہ دے کر رپورٹ تیار کی گئی ہے وہ تحقیق ہی ناقص ہے۔ البتہ رپورٹ میں کچھ دیگر ذرائع کا حوالہ ضرور دیا گیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت برلن اور صوبہ لوئر سیکسنی میں مہاجرین کی مدد کرنے والے رضاکاروں اور سماجی کارکنوں کی مدد سے تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ان دونوں وفاقی ریاستوں میں 10 سے لے کر 50 فیصد تک تارکین وطن ایسے ہیں جو غیر قانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔ این ڈی آر سے وابستہ محققین کے مطابق مہاجرین کی ناقص معاشی صورت حال اور دگرگوں حالات کی وجہ سے پناہ گزینوں کے مراکز میں کام کرنے والے افراد ان مہاجرین کو غیر قانونی کام تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔