جرمنی میں کسانوں کے بعد ریل ڈرائیوروں کی بھی ہڑتال
10 جنوری 2024
جرمنی میں ٹرین ڈرائیوروں کی ہڑتال اور کسانوں کی جانب سے سڑکیں بلاک کرنے کی وجہ سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اشتہار
جرمن ٹرین ڈرائیوروں کی تین روزہ ملک گیر ہڑتال اور سبسڈی میں کٹوتی سے ناراض کسانوں کے جاری احتجاج کی وجہ سے جرمنی میں نقل و حمل کے ممکنہ بحران کا خدشہ ہے۔
منگل کے روز فرینکفرٹ کی ایک لیبر عدالت نے جرمن ریل آپریٹر ڈوئچے بان (ڈی بی) کی جانب سے دائر کردہ عارضی حکم امتناع مسترد کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں اس اسٹرائیک کی اجازت مل گئی۔
ہڑتال کے دوران ریل سروس ہنگامی ٹائم ٹیبل پر چلے گی ، جس سے ڈی بی کے لاکھوں مسافروں میں سے بہت سے اپنے سفر منسوخ کرنے یا اپنی منزل تک پہنچنے کے دوسرے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ڈی بی نے کہا ہے کہ آئندہ تین دنوں کے دوران طویل فاصلے کی تقریباً 80 فیصد ٹرینیں منسوخ کرنا پڑیں گی جبکہ علاقائی ریل سروس بھی متاثر ہو گی۔ مال بردار ٹرین ڈرائیور بھی جمعہ کی شام تک ہڑتال کریں گے۔
ٹرین ڈرائیوروں کی یونین جی ڈی ایل نے ہڑتال کی کال دی، جو بہتر اجرت کے ساتھ ساتھ کام کے اوقات کو ہفتے میں 38 گھنٹے سے کم کر کے 35 گھنٹے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ڈی بی اور دیگر کیرئیرز کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے بعد سے ڈرائیوروں کی یہ تیسری اور سب سے بڑی ہڑتال ہے۔
کسان سڑکیں بند کر رہے ہیں
یہ ریل ہڑتال ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب جرمن کسانوں نے ڈیزل ایندھن جیسی سبسڈی میں کٹوتی کے خلاف ملک گیر احتجاج تیز کرنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔
پیر سے ہی کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ کئی شاہراہوں کے داخلی راستوں کو بند کر رہے ہیں جبکہ ساتھ ہی قصبوں اور شہروں میں بھی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
اس احتجاج کی وجہ سے جرمنی بھر میں ٹریفک میں کافی خلل پڑ رہا ہے۔
کچھ مبصرین نے اپوزیشن کے قدامت پسند سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے لیے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔
دوسری طرف متعدد حلقوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے عناصر اس احتجاج کو ہائی جیک کرتے ہوئے کسانوں کے غصے کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جرمن وزیر زراعت چیم اوزدیمیر نے کسانوں کے ایسے تحفظات مسترد کر دیے ہیں کہ حکومت ان کے مفادات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
یہ ہڑتالیں اور مظاہرے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب جرمن چانسلر اولاف شولس کی زیر قیادت مخلوط حکومت کو آئندہ مالی سال کے بجٹ پر پارلیمانی حمایت حاصل کرنے میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ع ب /ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمنی میں ہڑتال، روزمرہ زندگی متاثر
تصویر: picture-alliance/dpa
فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی عملے کی طرف سے جعمرات کے دن کی جانے والی ہڑتال کے باعث وہاں متعدد پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔ جس کی وجہ سے مسافروں کو پریشانی بھی ہوئی۔ ایک مسافر تھکن کی حالت میں ایئر پورٹ کے مسافر لاؤنج میں بیٹھا، ہڑتال ختم ہونے کا منتظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے ہڑتالیوں نے جمعرات کے دن دوپہر ایک بجے تک کام نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فرینکفرٹ ایئر پورٹ میں سکیورٹی چیک اِن گارڈز کے علاوہ ڈرائیورز، لوڈرز اور دیگر عملے نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں کے مطابق فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر کل پندرہ سو افراد نے ہڑتال میں شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جمعرات کو جرمنی کے سات ہوائی اڈوں پر ہڑتال کی گئی۔ اگرچہ سب سے زیادہ متاثر فرینکفرٹ اور میونخ کے ہوائی اڈے ہوئے لیکن ہیمبرگ، ہینوور، ڈُسلڈورف، اشٹٹ گارٹ اور کولون/ بون ایئر پورٹس پر بھی معمول کی پروازیں متاثر ہوئیں۔
تصویر: Reuters
جمعرات کے دن اس ہڑتال کے موقع پر کولون/ بون ایئر پورٹ خاصا خالی خالی دکھائی دیا کیونکہ بہت سے مسافروں نے اس دن ہوائی اڈے کا رخ ہی نہ کیا۔ بہت سے مسافروں نے اس ہڑتال کے اثرات سے بچنے کے لیے یا تو ٹرین کا استعمال کیا یا پھر اپنی گاڑیاں استعمال کیں۔ کچھ مسافروں نے تو اپنے سفر کے منصوبوں کو منسوخ بھی کر دیا۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین VerDi نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حکومتی وفد کے ساتھ آئندہ ہفتے شروع ہونے والے مذاکرات میں وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ویردی کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین بھی اقتصادی ترقی سے اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/N. Steudel
مزدور یونین تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت وفاقی اور میونسپل پبلک سیکٹر میں خدمات سرانجام دینے والے تقریبا 2.1 ملین ملازمین کی تنخواہوں میں 3.5 فیصد کا اضافہ کرے اور انہیں ماہانہ سو یورو کا بونس بھی دے۔
تصویر: DW/N. Steudel
کولون بون ایئر پورٹ کےترجمان والٹر رؤمر سرکاری ملازمین اور حکومت کے مابین پیدا ہونے والے لیبر تنازعات کے حل کے ماہرتصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیونیکیشن کے اس جدید دور میں ہڑتالوں سے اب لوگ ویسے متاثر نہیں ہوتے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
تصویر: DW/N. Steudel
فرانس کے دو تاجر جعمرات کی دوپہر تک واپس پیرس پہنچنا چاہتے تھے۔ تاہم فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی ایک پرواز کی منسوخی کے بعد وہ وہیں پھنس کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں ہونے والی ہڑتالوں کی وجہ سے یہ بدنظمی ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
تصویر: DW/N. Steudel
جرمنی میں جاری ہڑتالوں کے سلسلے سے صرف ایئر پورٹس ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ متعدد شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ سے وابستہ اہلکاروں نے بھی کام بند کر دیا۔ ان میں بسوں اور مقامی سطح پر چلنے والی ٹرینوں کے ڈرائیورز بھی شامل تھے۔ یوں بون سمیت کئی شہروں کے رہائشی بھی اس ہڑتال سے شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ہڑتال کی گئی۔ تاہم وہاں ہڑتال کچھ مختلف تھی کیونکہ برلن میں کوڑا کرکٹ اٹھانے والے عملے نے کام کرنا بند کر دیا۔ یوں شہر کے رہائشیوں نے اس ’وارننگ ہڑتال‘ کے دوران شہر کی صفائی میں خود حصہ لیا۔ اگر ٹریڈ یونین تنظیموں اور حکومتی وفود کے مابین جاری مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو صورتحال ایک مرتبہ پھر بگڑ سکتی ہے۔