جرمن حکام نے کسی بھی ملک کا پرچم جلانے کو قابل سزا جرم قرار دینے والے قانون کو ایک لازمی اقدام قرار دیا ہے۔ تاہم ایک جماعت کا موقف ہے کہ یہ شہریوں کے آزادی اظہار پر قدغن ہے۔
اشتہار
جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے جمعرات 14 مئی کو دیر گئے وہ قانون پاس کیا جس کے تحت جرمنی میں یورپی یونین یا کسی بھی ملک کا پرچم جلانا ایک قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس نئے قانون کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے کو تین برس تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے قانون سازی کے عمل کا آغاز مظاہرین کی طرف سے برلن کی سڑکوں پر اسرائیلی پرچم جلائے جانے کے بعد ہوا تھا۔
اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیگل پالیسی کے ترجمان یوہانس فیشنر کے بقول، ''جرمنی میں اسرائیلی پرچم جلانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
جرمن وزیر انصاف کرسٹینا لامبریشٹ کے مطابق، ''عوامی سطح پر پرچم جلانا پر امن احتجاج نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد نفرت، غصے اور تشدد کو ہوا دینا ہوتا ہے۔‘‘
متنازعہ قانون
اس قانون سے قبل جرمن پینل کوڈ وفاقی ری پبلک اور دیگر خودمختار ممالک کی علامات کو تحفظ فراہم کرتا تھا مگر بعض شرائط کے ساتھ۔ مثال کے طور پر اس کے لیے ضروری تھا کہ جرمنی کے اس ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات موجود ہوں۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
10 تصاویر1 | 10
نئے قانون کا مقصد ان خامیوں کا خاتمہ اور یورپی یونین کے پرچموں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو یورپی یونین کے مخالفین اور جرمنی میں دائیں بازو کے مظاہروں کے دوران اکثر جلائے جاتے رہے ہیں۔
جرمن وفاقی پارلیمان میں اس قانون کے خلاف ووٹ دینے والی واحد جماعت انتہائی دائیں بازو کی پارٹی 'آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ‘ ہے۔ اس جماعت کا موقف تھا کہ یہ قانون جرمن شہریوں کے آزادی اظہار کے خلاف ہے۔