جرمنی میں کم از کم فی گھنٹہ اجرت بارہ یورو کر دینے کا فیصلہ
23 فروری 2022
جرمنی میں نئی وفاقی حکومت نے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد اپنا ایک کلیدی انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے کے مطابق ملک میں کارکنوں کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت بڑھا کر بارہ یورو کر دی جائے گی۔
اشتہار
برلن میں چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں گزشتہ برس کے اواخر میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں تین سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ چانسلر شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا ملکی عوام سے گزشتہ برس موسم خزاں میں کیا جانے والا ایک کلیدی انتخابی وعدہ یہ بھی تھا کہ عام کارکنوں کے لیے کم از کم فی گھنٹہ اجرت بڑھا کر 12 یورو کر دی جائے گی۔ آج بدھ 23 فروری کے روز برلن میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں اس وعدے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کر دی گئی۔
چھ ملین سے زائد کارکنوں کے لیے مالی فائدہ
جرمنی میں اس وقت ایسے عام کارکنوں کے لیے، جو اپنے شعبے کے ماہر پیشہ ور کارکن نہ ہوں، قانونی طور پر طے کردہ کم از کم فی گھنٹہ اجرت 9.82 یورو بنتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے آج جو فیصلہ کیا، اس سے ملک بھر میں کم از کم بھی 6.2 ملین کارکنوں کو مالی فائدہ ہو گا۔
قانونی طور پر اب تک مؤثر 9.82 یورو کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت اس سال یکم جولائی سے بڑھا کر 10.45 یورو کر دی جائے گی۔ اس کے بعد اس رقم میں اگلا اضافہ اسی سال یکم اکتوبر سے ہو جائے گا اور یہ معاوضہ 12 یورو فی گھنٹہ (13.6 ڈالر کے برابر) کر دیا جائے گا۔
جرمن چانسلر نے ملکی کابینہ کے آج کے فیصلے کا اپنی ایک ٹویٹ میں اعلان کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے ملک میں بہت سے شہری کام زیادہ کرتے ہیں مگر ان کی آمدنی کم ہوتی ہے۔ یہ صورت حال لازمی طور پر بدلنا چاہیے۔‘‘ اپنی ٹویٹ میں اولاف شولس نے مزید لکھا، ''میری رائے میں یہ حکومت کی طرف سے منظور کردہ اہم ترین قوانین میں سے ایک ہے، کیونکہ معاملہ کارکنوں کی محنت اور اس کے احترام کا ہے۔‘‘
اس بارے میں جرمن وزیر محنت ہوبیرٹس ہائل نے کہا، ''اس حکومتی فیصلے اور کم از کم فی گھنٹہ اجرت میں اضافے سے خاص طور پر فائدہ ایسے کارکنوں کو پہنچے گا، جو کیٹرنگ، پیشہ وارانہ خدمات، صفائی ستھرائی اور ویئر ہاؤس لاجسٹکس جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے کارکنوں کی تعداد 6.2 ملین سے زائد بنتی ہے۔‘‘
جرمن ٹریڈ یونین تنظیموں کی قومی فیڈریشن نے کم از کم فی گھنٹہ اجرت میں اس اضافے کے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عام کارکنوں کی قوت خرید بڑھے گی اور جرمن معیشت کو، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، سالانہ بنیادوں پر تقریباﹰ 4.8 بلین یورو کا فائدہ ہو گا۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمن طرز زندگی کی پہچان
تمام جرمن تو نہیں مگر زیادہ تر لوگ کچھ سماجی عادتوں کے بارے میں بہت پر جوش اور جوشیلے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کو بھی کوئی ایسا جرمن ملے تو حیران نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بیئر
دنیا میں صرف چیک جمہوریہ کے لوگ ہی جرمنوں سے زیادہ بیئر پیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جرمن کو ہی بیئر اچھی لگتی ہے، مگر سماجی طور پر ایسا ہی مشہور ہے۔ اگر ایک بزرگ خاتون دوپہر کے وقت نصف لٹر بیئر پی رہی ہوں تو انہیں شرابی تصور نہیں کیا جائے گا۔ اور بیئر کے ایک جرمن شوقین کے پاس بوتل کھولنے والی چابی کے بغیر بوتل کھولنے کے کئی تخلیقی طریقے موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کاغذی کارروائی
کاغذوں کو ایک ساتھ رکھنے والا ’بائنڈر‘ جرمن ایجاد ہے اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جرمن باشندے ریکارڈ رکھنے کے کس قدر شوقین ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی انتہائی غیر منظم شخص بھی کسی سرکاری کام کے لیے ضروری کاغذ فوراﹰ ڈھونڈ لے گا۔ اصل میں جرمنی میں کاغذات کی ضرورت بھی آپ کے خیال سے بڑھ کر ہی پڑتی ہے۔ ڈیجیٹل ریکارڈز کے باوجود جرمن بیوروکریسی حیران کُن طور پر کاغذی ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Colourbox/M. Chab
سستے داموں خریداری
جرمنی ایک ایسا ملک ہے جہاں کم داموں پر اشیاء فروخت کرنے والے اسٹور اکثر معاشرے کے تمام طبقوں کے لیے سپر مارکیٹ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ بہترین قیمتوں پر اشیاء ضرورت کی خریداری کی تلاش میں رہتے ہیں، انہیں جرمن زبان میں ’شنَیپشن ژےگر‘‘ یعنی کم قیمتوں کے شکاریوں کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ اس قدر پختہ ہے کہ جرمنی میں ایڈورٹائزنگ کا ایک نعرہ ’گائز اِسٹ گائل‘ یعنی ’بچت سیکسی ہے‘ انتہائی مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
سیر و سیاحت
اگر آپ کسی سیاحتی مقام مثلاﹰ مشرق وُسطیٰ وغیرہ میں ایسے سیاحوں سے ملتے ہیں جو ہائیکنگ کے لیے جدید اشیاء سے لیس ہوں، تو بہت ممکن ہے کہ وہ درمیانی عمر کے جرمن ہی ہوں گے۔ سفر کے شوقین جرمن ہر جگہ آپ کو ملیں گے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر طے شدہ عادات کے حامل ہوں گے۔ جرمنوں کی ایک پسندیدہ سیاحتی منزل اسپین کے کیناری جزائر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’شریبر گارٹن‘، باغبانی کی کالونیاں
جرمنی میں چھوٹے چھوٹے باغوں پر مشتمل کالونیاں بہت معروف ہیں۔ ملک بھر میں 1.4 ملین ’شریبر گارٹن‘ موجود ہیں۔ یہ دراصل ایسی چھوٹی کالونیاں ہوتی ہیں، جن میں لوگ باغبانی کے لیے چھوٹے چھوٹے پلاٹ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ یہاں لوگ پھول اور پودے اگا سکتے ہیں، بار بی کیو کر سکتے ہیں اور ایسے باغیچوں کو اپنے ذاتی باغوں کی طرح سجا سکتے ہیں۔ تاہم یہ باغیچے کرائے پر لینے کے قوانین کافی سخت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
سڑکوں پر قوانین کا احترام
ایک بالغ شخص کے طور پر آپ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں کہ جب سڑک پر کوئی کار نہ ہو تو آپ ٹریفک کے سُرخ سگنل پر بھی سڑک پار کر لیں۔ لیکن جرمنی میں اگر آپ ایسا کریں تو حیران مت ہوں، جب کوئی چیخ کر آپ کو کہے کہ ’ابھی سگنل سُرخ ہے‘۔ عام طور پر سائیکل سوار، پیدل چلنے والے، کار ڈرائیور اور باقی تمام لوگ بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی سڑک پر موجود دیگر لوگوں کی تربیت کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
’شٹَم ٹِش‘
جرمن سماجی روایت ’شٹَم ٹِش‘ کا کوئی لغوی ترجمہ اگر ہو سکتا ہے، تو وہ ’گروہی میز‘ ہے۔ شٹَم ٹِش ابتدا میں پب یا کسی کلب میں صارفین کے لیے کسی میز کو مختص کرنے کو کہا جاتا تھا، جہاں وہ بیٹھ کر کارڈ گیمز کھیلتے یا گپ شپ اور بحث و مباحثے کرتے۔ یہ بحث تاہم زیادہ وسیع نہیں ہوتی تھی۔ شٹَم ٹِش اب مختلف گروپوں کی طرف سے باقاعدہ ملاقاتیں منظم کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
’ٹاٹ اَورٹ‘
ہر اتوار کی شام قریب 10 ملین جرمن، ٹیلی وژن پر ’ٹاٹ اَورٹ‘ نامی ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں۔ ٹاٹ اَورٹ کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’جائے وقوعہ‘۔ یہ سیریز 1970ء سے مسلسل جاری ہے۔ علاقائی پبلک براڈکاسٹر باری باری اس سیریز کی مختلف قسطیں تیار کرتے ہیں، لہٰذا مختلف جرائم کی تفتیش کا عمل ہر بار کسی الگ شہر میں دکھایا جاتا ہے۔ کئی پب بھی اس سیریز کو دکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ہر روز کیک
’کافے اُنڈ کُوخن‘ یعنی ’کافی اور کیک‘ نامی روایت کے تحت جرمن باشندے ہر سہ پہر کیک کھا سکتے ہیں۔ اب زیادہ تر اختتام ہفتہ پر ہی اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی سالگرہ ہے، تو پھر آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اپنے کام کی جگہ پر بھی کیک لے کر جائیں۔ بچے کبھی کبھی ناشتے کا آغاز بھی کیک سے ہی کرتے ہیں اور اسکول میں کھانے کے لیے بھی اپنے ساتھ کیک ہی لے جاتے ہیں۔