جرمنی میں کورونا متاثرین چار ملین، اموات بانوے ہزار سے زائد
5 ستمبر 2021
جرمنی میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھ کر اب چار ملین سے زائد ہو گئی ہے جبکہ اس وائرس کی وجہ سے لگنے والی مہلک بیماری کووڈ انیس کے باعث مجموعی طور پر بانوے ہزار تین سو سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں وبائی امراض کی روک تھام کے نگران وفاقی ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے اتوار پانچ ستمبر کی صبح بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا وائرس کی دس ہزار چار سو تریپن نئی انفیکشنز ریکارڈ کی گئیں۔ یوں گزشتہ برس کے آغاز سے اب تک یہ عالمی وبا جرمنی میں چار ملین پانچ ہزار چھ سو اکتالیس افراد کو متاثر کر چکی ہے۔ ٹھیک ایک ہفتہ قبل نئی انفیکشنز کی یہ روزانہ تعداد آٹھ ہزار چار سو سولہ رہی تھی۔
رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے ڈیٹا کے مطابق اب تک ملک میں چار ملین سے زائد باشندوں میں کورونا وائرس کی باقاعدہ تشخیص ہو چکی ہے مگر عین ممکن ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو کیونکہ ایسی ہر انفیکشن کی عملی طور پر طبی تشخیص اس لیے نہیں ہو پاتی کہ کئی متاثرین کو یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ کورونا انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں کووڈ انیس کے مزید 21 مریض انتقال کر گئے۔ ٹھیک سات روز قبل ہفتے ہی کے دن ایسی یومیہ ہلاکتوں کی تعداد 12 رہی تھی۔
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
15 تصاویر1 | 15
اسی دوران جرمنی میں صرف کورونا وائرس یا دیگر طبی عارضوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کا شکار ہو کر انتقال کر جانے والے باشندوں کی مجموعی تعداد بھی اب بانوے ہزار تین سو چھیالیس ہو گئی ہے۔
جرمنی میں، جو اپنی تقریباﹰ 83 ملین کی آبادی کے ساتھ یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، اب تک سینتیس لاکھ اڑسٹھ ہزار چار سو افراد کورونا وائرس کا شکار ہو کر دوبارہ صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
مجموعی طور پر جرمنی میں اب ہفتے وار بنیادوں پر فی ایک لاکھ شہریوں میں کورونا وائرس کے متاثرین کا اوسط تناسب ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں زیر علاج کورونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد تو کافی ہے مگر اس وجہ سے ہسپتالوں کے آئی سی یو وارڈز پہلے کی طرح غیر معمولی دباؤ کا شکار نہیں ہیں۔
م م / ک م (روئٹرز، ڈی پی اے)
موسم گرما کی چھٹیوں میں سیاحت کا کیا حال ہوگا؟
یورپ میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ایسے میں گرمیوں کی چھٹیاں کیسے گزاری جائیں؟ اس پکچر گیلری میں جانیے 2021ء کے موسم گرما کی چھٹیوں کے لیے آپ کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Shkullaku
بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت
کورونا ویکسین کی دستیابی عام ہونے تک یہ بات طے ہے کہ پہلے کی طرح سفر نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن گرمیوں کی تعطیلات کے لیے اسپین اور یونان جیسے مقبول ترین یورپی سیاحتی مقامات کی پہلے سے بکنگ جاری ہیں۔ اس کی ایک وجہ ٹریول آپریٹرز کی جانب سے سفری پابندیاں جاری ہونے کی صورت میں لوگوں کو مفت میں بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت دینا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arnold
لمبے سفر سے گُریز
جرمنی کی ٹریول ایسوسی ایشن کے مطابق اس بار میسحی تہوار ایسٹر کی تعطیلات کے دوران سیاحت کے رجحان میں کمی کا امکان ہے۔ تاہم مئی کے اواخر میں موسم گرما کے آغاز سے بکنگز کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن زیادہ تر جرمن سیاح بیرون ملک یا لمبے سفر کی بکنگ کرانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zoonar/B. Hoyen
ساحل سمندر
قوی امکان ہے کہ اس سال گرمیوں میں زیادہ تر سیاح ساحل سمندر کا رُخ کریں گے۔ خیال ہے کہ عالمی وبا کے سبب بیچز پر بھی حفاظتی ضوابط کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ اس وجہ سے بہت سے افراد ابھی اپنے سفر کے لیے حتمی بُکنگ نہیں کرا رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zimmermann
قرنطینہ کے ساتھ سیاحت
بہت سارے لوگوں کے لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا اس سال موسم گرما میں بین الاقوامی سفر کرنے کی اجازت ہوگی بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کن شرائط پر؟ اس کا انحصار مختلف ملک میں کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد پر ہوگا۔ اسی طرح مقامی سطح پر ویکسین کی دستیابی اور سفر سے واپسی پر قرنطینہ سے متعلق قواعد کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
ایک سروے کے مطابق سفری پابندیوں کے نتیجے میں اس مرتبہ موسم گرما کے دوران سیاحوں کی بڑی تعداد بین الاقوامی سفر کے بجائے اپنے ہی ملک میں سیاحتی مقامات پر تعطیلات گزارنے کو ترجیح دے گی۔ جرمنی میں تعطیلات گزارنے کے لیے تقریباﹰ ساٹھ فیصد گھر پہلے ہی بُک ہوچکے ہیں۔
تصویر: Colourbox
قدرت کے نزدیک
لندن، پیرس، برلن ہو یا نیویارک، دنیا بھر کے سیاح عام طور پر بڑے شہروں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عالمی وبا کے بعد سن 2020 کے موسم گرما میں پہاڑی اور دیہی علاقہ جات میں سیاحوں کی بڑی دلچسپی دیکھی گئی۔ یورپ میں اس سال موسم گرما میں کوشش کی جا رہی ہے کہ موسم گرما میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی تعداد محدود رکھی جائے۔
تصویر: NDR
ماحول دوست سیاحت
ہائکنگ، بائکنگ یا پھر کیمپنگ؟ آج کل ماحول سیاحت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، پھر چاہے آپ کی منزل کہیں بھی ہو۔ نوجوان سیاحوں کی بڑی تعداد عالیشان اور مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے بجائے تعطیلات کے دوران رہائش کے لیے چھوٹے گھر اور کیمپنگ سائٹس کو ترجیح دے رہے ہیں۔