جرمنی میں کورونا وبا کے باوجود روزگار کی مںڈی میں بہتری
5 جنوری 2022
جرمنی میں کورونا وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن ماہرین اومیکرون کو معیشت کے لیے ایک خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کورونا وبا کی نئی لہر اور وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے لگنے والی پابندیوں کے باوجود شرح بے روزگاری میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پچھلے سال کے آخری دو ماہ میں یہ شرح پانچ اعشاریہ تین سے گر کر پانچ اعشاریہ دو پر آ گئی تھی یعنیدسمبر میں نومبر کے مقابلے میں بے روزگار لوگوں کی تعداد میں 23000 کی کمی ہوئی تھی۔
وفاقی ادارہ برائے روزگار'بی اے‘ کے مطابق 23000 لوگوں کو نوکریاں فراہم کی گئیں۔ بی اے کے سربراہ ڈیٹلیف شیلے نے کہا ہے کہ پچھلے کچھ ماہ سے بے روزگاری کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی اور بہتری کا یہ رجحان دسمبر تک جاری رہا۔
ان اعداد وشمار کے مطابق دسمبر میں بے روزگار افراد کی تعداد 2,330,000تھی، جو اس سے ایک برس قبل یعنی دسمبر 2020ء کے مقابلے میں قریب 378,000 کم ہے۔جرمنی کا زیادہ تر انحصار ریاستی امداد والے قلیل مدتی اسکیمز ( شارٹ ٹائم ورک) پر رہا ہے تاکہ چھوٹے کاروباروں اور ملازمین کو مدد فراہم کی جا سکے۔ اپریل کے مہینے میں جب کورونا وبا کی تباہ کاریاں عروج پر تھیں، 60 لاکھ جرمن شہریوں کی ملازمت کے اوقات کم کر دیے گئے تھے۔
اکتوبر میں شائع ہونے والے ڈیٹا کے مطابق اس اسکیم سے اب بھی سات لاکھ سے زائد لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ بی اے کے مطابق پچھلے سال کے آخر میں اس قلیل مدتی اسکیم کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں سے اندازہ ہوا کہ ملک میں کورونا وبا کی نئی شکل اومیکرون کی وجہ سے لوگوں میں مستقبل کو لے کر بے یقینی کتنی بڑھ رہی ہے۔ ماہِ دسمبر میں تقریبا 286000 لوگوں نے یہ درخواست جمع کرائی، جو اس سے ایک ماہ قبل نومبر میں ایک لاکھ سے کچھ زائد تھی۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
قرض دینے والے ادارے کے ایف ڈبلیو کے سربراہ اور ماہرِ اقتصادیات فرٹزی کوہلر گائب کے مطابق پچھلے سال ملک میں مجموعی طور پر جاب مارکیٹ کی صورتحال بڑی حوصلہ افزا رہی ہے لیکن کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ جرمنی کی معیشت کے لیے ایک نیا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔