جرمنی میں کورونا پابنديوں کی مخالفت، دائيں بازو نماياں
6 ستمبر 2020
جرمنی کی داخلی انٹيليجنس ايجنسی کے مطابق کورونا سے متعلق سماجی پابندیوں کے خلاف حاليہ مظاہروں ميں ايک بڑی تعداد دائيں بازو کے انتہا پسندوں کی تھی۔
اشتہار
جرمنی ميں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے ليے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ پابنديوں کی مخالفت ميں دائيں بازو کے انتہا پسند پيش پيش ہيں۔ پابنديوں کے خاتمے کے ليے نکالی گئيں تقريباً نوے چھوٹی بڑی ريليوں ميں دائيں بازو سے وابستہ سرکردہ شخصيات نے تقارير کيں اور اپنا پيغام لوگوں تک پہنچايا۔
جرمنی کی داخلی انٹيلينس ايجنسی نے يہ معلومات جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی 'ليفٹ پارٹی‘ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں مہیا کیں۔
کورونا وائرس کے پھيلاؤ کو روکنے کے ليے نافذ کردہ پابنديوں کی مخالفت ميں حاليہ مہينوں ميں جرمنی بھر ميں کئی مظاہرے منعقد ہوئے ہيں۔ اگست کے اواخر ميں دارالحکومت برلن ميں ہونے والے ایک ايسے ہی مظاہرے ميں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
شرکاء نے 'کورونا آمريت‘ اور 'کورونا پاگل پن‘ کے نعرے لگائے۔ برلن ميں منعقدہ مظاہرے ميں ايک ايسے گروہ کے ارکان نے بھی شرکت کی، جو خود کو 'رائش برگر‘ کہتے ہيں۔ یہ تنظیم جرمن رياست کو تسليم نہيں کرتی۔
اسی طرح نيو نازيوں کے مختلف گروپوں نے بھی برلن ريلی ميں شرکت کی جبکہ اسلام اور مہاجرين مخالف سياسی پارٹی 'آلٹرنيٹوو فار ڈوئچلانڈ‘ اے ایف ڈی کے حامی بھی بڑی تعداد ميں دکھائی ديے۔
برلن ميں منعدہ بڑی ريلی پر تو ميڈيا کی کافی توجہ رہی مگر مشرقی رياست سيکسنی انہالٹ، جہاں ايسے مظاہروں ميں سب سے زيادہ دائيں بازو کے انتہا پسند دکھائی ديے، ذرائع ابلاغ کی آنکھ سے بچے رہے۔ پچيس اپريل اور دس اگست کے درميان کورونا کے اقدامات کے خلاف منعقدہ ريليوں ميں سے ايک تہائی ريليوں پر دائيں بازو کے انتہا پسند حاوی رہے۔
ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد جرمن حکومت نے اپنے رد عمل ميں کہا ہے کہ دائيں بازو کےانتہا پسند اپنے منشور کو وسعت دينے يا انہيں احتجاج کا کليدی حصہ بنانے ميں ناکام رہے۔
تاہم يہ واضح کيا گيا ہے کہ حکام اس کا باريکی سے جائزہ لے رہے ہيں۔ جرمنی ميں بائنں بازو کی ليفٹ پارٹی سے وابستہ قانون ساز اولا يلکے البتہ سمجھتی ہيں کہ حکومت کو اس معاملے کی شدت کا اندازہ نہيں۔
پچھلے دس سالوں کے دوران دنيا بھر ميں مسلم، يہودی اور سياہ فام افراد کی برادرياں انتہائی دائيں بازو کے سياسی نظريات کے حامل افراد کے کئی پر تشدد حملوں کا نشانہ بنی ہيں۔ ايسے چند بڑے حملوں کی تفصیلات اس پکچر گيلری میں۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم خاندان کے ارکان پر ٹرک حملہ
کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے اپنا پک اپ ٹرک پیدل چلنے والے ایک مقامی مسلم خاندان کے افراد پر چڑھا دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ لندن میں پیش آنے والے اس واقعے کا بیس سالہ مشتبہ ملزم حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ کے مطابق اس جرم کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
نيوزی لينڈ، سن 2019: دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے
کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں ميں انتہائی دائيں بازو کے ایک دہشت گرد نے، جو ایک آسٹریلوی شہری ہے، دو مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ کی تاريخ میں دہشت گردی کے بد ترين اور سب سے ہلاکت خیز جڑواں واقعات تھے۔
تصویر: picture-alliance/empics/PA Wire/D. Lawson
جرمنی، سن 2019: نئے سال کی آمد پر حملہ
جرمنی کے مغربی شہروں بوٹروپ اور اَيسن ميں اکتيس دسمبر کی رات نئے سال کی آمد کی تقريبات کے دوران ايک پچاس سالہ حملہ آور نے تارکين وطن پر حملے شروع کر ديے۔ اپنی گاڑی کی مدد سے اس حملہ آور نے آٹھ افراد کو زخمی کيا۔ مجرم نے شامی اور افغان خاندانوں کو نشانہ بنايا تھا۔ پوليس نے بعد ازاں تصديق کی کہ حملہ آور غير ملکیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
امريکا، سن 2018: يہوديوں کی عبادت گاہ پر فائرنگ
ستائیس اکتوبر سن 2018 کے روز ايک چھياليس سالہ حملہ آور نے امريکا کے شہر پٹسبرگ ميں يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو قتل اور سات ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے اپنی کارروائی سے قبل ساميت دشمن جذبات کا مظاہرہ بھی کيا تھا اور انٹرنيٹ پر اس ضمن ميں مواد بھی جاری کيا تھا۔ يہ امريکا ميں يہوديوں پر کیا گیا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Rourke
کينيڈا، سن 2017: کيوبک کی مسجد پر حملہ
کينيڈا کے شہر کيوبک کے اسلامی ثقافتی مرکز پر جنوری 2017 کے اواخر ميں ايک مسلح حملہ آور نے فائرنگ کر کے چھ افراد کو ہلاک اور ايک درجن سے زائد کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے مغرب کی نماز کے دوران نمازيوں پر فائرنگ کی تھی۔ بعد ازاں کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مسلمانوں پر ايک ’دہشت گردانہ‘ حملہ قرار ديا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
برطانيہ، سن 2017: فنسبری پارک مسجد
برطانوی دارالحکومت لندن کے شمالی حصے ميں ايک سينتاليس سالہ حملہ آور نے فنسبری پارک کے قريب واقع مسجد کے قريب کھڑے افراد کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔ اس حملے ميں ايک شخص ہلاک اور دس ديگر زخمی ہوئے تھے۔ تمام متاثرين مسلم تھے، جو ماہ رمضان ميں فجر کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ حملہ آور نے بعد ازاں تسليم کيا تھا کہ اس نے يہ کارروائی ’اسلام دشمنی‘ کی وجہ سے کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
جرمنی، سن 2016: ميونخ ميں فائرنگ کا واقعہ
ايک اٹھارہ سالہ ايرانی نژاد جرمن شہری نے بائيس جولائی سن 2016 کے روز ميونخ کے ايک شاپنگ مال ميں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک اور چھتيس ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ بعد ازاں حملہ آور خود بھی مارا گيا تھا۔ پوليس کے مطابق مجرم اجانب دشمنی ميں مبتلا تھا اور نسل پرستانہ رجحانات کا حامل بھی تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اسے اسکول ميں اس کے ساتھی اکثر تنگ کيا کرتے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Simon
امريکا، سن 2015: چارلسٹن کے چرچ ميں قتل عام
امريکا ميں سياہ فام افراد کے چرچ ’ايمانوئل افريقی ميتھوڈسٹ ايپسکوپل چرچ‘ پر سترہ جون سن 2015 کو ايک اکيس سالہ نوجوان نے حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ رياست جنوبی کيرولائنا کے شہر چارلسٹن ميں پیش آنے والے اس واقعے ميں نو افريقی نژاد امريکی شہری اور ايک پادری ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
امريکا، سن 2015: چيپل ہل شوٹنگ
دس فروری سن 2015 کے روز يونيورسٹی کے تین عرب مسلم طلبہ، جو ایک مرد، اس کی بیوی اور اس کی خواہر نسبتی پر مشتمل تھے، ان کے ايک سفيد فام پڑوسی نے قتل کر ديا تھا۔ چھياليس سالہ مجرم خود کو مذہب مخالف قرار دیتا تھا اور وہ ان تینوں مقتولين کو کئی مرتبہ ڈرا دھمکا بھی چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد امريکا ميں #Muslimlivesmatter کا ہيش ٹيگ وائرل ہو گیا تھا۔
دائيں بازو کے انتہا پسند آندرس بريوک نے 22 جولائی 2011ء کو دوہرے حملے کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر ديا تھا۔ پہلے اس نے اوسلو ميں ايک علاقے ميں بم دھماکا کيا جہاں کئی سرکاری دفاتر موجود تھے اور پھر ايک سمر کيمپ ميں طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے سے قبل بريوک نے اپنا منشور بھی جاری کيا تھا، جس کے مطابق وہ يورپ کے کثير الثقافتی معاشروں اور اس براعظم ميں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit
امريکا، سن 2017: شارلٹس وِل ميں کار سے حملہ
رياست ورجينيا کے شہر شارلٹس وِل ميں نيو نازيوں کی ايک ريلی کی مخالفت ميں احتجاج کرنے والوں پر ايک قوم پرست شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔ اس حملے ميں ايک عورت ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ يہ واقعہ بارہ اگست کے روز پيش آيا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P.J. Richards
جرمنی، سن 2009: ڈريسڈن کی عدالت ميں عورت کا قتل
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا الشربينی کو ڈريسڈن کی ايک عدالت ميں يکم جولائی سن 2009 کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ان کا قاتل ايک اٹھائيس سالہ روسی اور جرمن شہريتوں کا حامل ملزم تھا، جس کے خلاف الشربينی نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل ہی گواہی دی تھی۔ مجرم نے قبل ازيں الشربينی کو ’دہشت گرد اور اسلام پسند‘ کہا تھا۔ مروا الشربينی کے قتل کو جرمنی ميں ’اسلاموفوبيا‘ کے نتيجے ميں ہونے والا پہلا قتل قرار ديا جاتا ہے۔