جرمنی میں کیڑے مکوڑوں سے متعلق سامنے آنے والے ایک طویل المدتی جائزے کو ایک ’بم‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ تیس برسوں کے دوران اس ملک میں اڑنے والے کیڑوں کی تعداد میں تین چوتھائی کمی واقع ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمن شہر کریفیلڈ کی اینٹیومولوجیکل سوسائٹی نے ایسی ہی ایک تحقیق اکتوبر دو ہزار سترہ میں شائع کی تھی لیکن اب میونخ کی مشہور ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ارضی ماحولیات کے سائنسدانوں نے بھی اس امر کی تصدیق کر دی ہے۔ ان سائنسدانوں کی تحقیق تیس اکتوبر کو مشہور جرنل نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں نے سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار سترہ تک باقاعدگی سے جرمنی کے تین مختلف حصوں میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑوں کا مشاہدہ جاری رکھا۔ اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کے ساتھ ساتھ دیگر حشرات اور مکڑیوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ کیڑے مکوڑوں کی تعداد سے متعلق کی جانے والی اس مفصل تحقیق کے لیے مجموعی طور پر ملک کے تین بڑے حصوں میں واقع دو سو نوے مقامات پر پائے جانے والے جنگلات اور سرسبز علاقوں کا جائزہ لیا گیا۔
اس تحقیق کے دوران تقریباً ایک ملین کیڑے مکوڑوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور ان حشرات کی ستائیس سو سے زائد اقسام کا جائزہ لیا گیا۔ جاری ہونے والی تحقیق کے مطابق گزشتہ تقریباً دس برسوں کے دوران ہی کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں يہ ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔
اب کیا کیا جائے؟
جرمنی کی وفاقی وزیر ماحولیات سوینیا شولسے نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کس قدر گھمبیر ہے۔ زراعت کی بقاء میں کیڑے مکوڑوں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔‘‘ اس تحقیق میں شامل پروفیسر زائیبولڈ کا کہنا تھا کہ صرف خاص علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے اور وہاں کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں اضافے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، ''ان کی کمی کو روکنے کے لیے نہ صرف علاقائی بلکہ قومی سطح پر مربوط رابطوں اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی میں کسانوں کی تنظیم کے صدر یوآخم روکویڈ کا کہنا تھا، ''اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے کسانوں کو اس کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ زراعت کا تو انحصار ہی مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے ہونے والی پولینیشن پر ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کی ایسوسی ایشن ماحول کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تعاون کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسان کچھ قابل کاشت علاقہ دوبارہ فطرت کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، '' رواں برس رضاکارانہ طور پر کسانوں نے ملک بھر میں فصلوں کے قریب پھولوں کی لائنیں اگائی ہیں تاکہ کیڑے مکوڑوں کی افزائش ہو اور انہیں کھانا مل سکے۔ ملک بھر میں پانچ میٹر چوڑی ایسی پٹیوں کی لمبائی دو لاکھ تیس ہزار میٹر سے بھی زائد تھی۔ یہ اتنے پھول تھے کی زمین کے گرد چھ لائینیں بنائی جا سکتی ہیں۔‘‘
دوسری جانب تحفظ ماحول کے کارکن ہر قسم کی کیڑے مار ادویات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح کیمیائی مادے گلیفوسیٹ پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
ہماری خدمت کرنے والے قدرتی خاکروب
بہت سے فاضل مادے ہماری سڑکوں اور گلیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کو صاف کون کرتا ہے؟ جواب ہے، کیڑے مکوڑے! سائنسدانوں کے مطابق ان جانداروں کے بغیر ماحولیاتی صفائی ممکن ہی نہیں۔
تصویر: Thangasami Sivanu
چھوٹے خاکروب
تعارف: لان چیونٹی۔ اس چیونٹی ہی کی وجہ سے ہمارے گھر اور سڑکیں چوہوں اور دیگر بڑے جانوروں کی کثیر تعداد سے محفوظ رہتے ہیں۔ جہاں بھی کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے، وہاں یہ چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں دیگر بڑے اور نقصان دہ جانوروں کے لیے کم ہی کچھ باقی چھوڑتی ہیں۔
تصویر: April Nobile/AntWeb.org/cc-by-sa
بہترین سروس
چیونٹیاں شہروں کو صاف رکھتی ہیں۔ امریکی ریاست نارتھ کیرولائینا کی اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک خاتون سائنسدان اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ چیونٹیاں درحقیقت بہترین سروس فراہم کرتی ہیں۔ یہ فاضل مادوں کو بہترین انداز سے ٹھکانے لگاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/Jason Wambsgans
سارا عملہ صفائی کے لیے
صرف چیونٹیاں ہی صفائی نہیں کرتیں۔ اس عمل میں تمام کیڑے مکوڑے، مثلاﹰ مکڑیاں، کنکھجورے اور بہت بدنام کاکروچ تک سبھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق انہی جانداروں کی وجہ سے گلیاں اور سڑکیں گرم اور خشک رہتی ہیں اور انسانی رہائشی علاقے دیگر خطرناک جانوروں سے محفوظ رہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/epa/Vinai Dithajohn
کیڑوں کی چہل قدمی
امریکی سائنسدانوں کے مطابق نیو یارک شہر کے علاقے مین ہیٹن کی مشہور سڑکوں براڈوے اور ویسٹ اسٹریٹ پر ان حشرات الارض کی چہل قدمی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق وہاں یہ کیڑے سالانہ ایک ہزار کلو گرام پھینکا ہوا کھانا کھا جاتے ہیں۔ یہ مقدار 60 ہزار ہاٹ ڈاگ برگروں کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Sergi Reboredo
گھروں اور گلیوں میں
کیڑے ہمیشہ خوراک کا پیچھا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ ایسی جگہوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں انہیں کچھ کھانے کو ملتا ہو۔ امریکی ماہرین کے مطابق یہی بات ان کیڑوں کو سڑکوں اور آبادی والے علاقوں تک کھینچ لاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Sven Hoppe
چوہوں کے بجائے چیونٹیاں
اصل میں کوڑے کے طور پر فاضل مادوں کے معاملے میں حشرات اور ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں مقابلہ بازی رہتی ہے۔ اگر یہ مقابلہ بازی نہ ہو تو چوہوں کی تعداد میں بےتحاشا اضافہ ہو جائے۔ اگر چوہے کم ہوں گے تو ان سے انسانوں کو منقتل ہونے والی بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ اسی وجہ سے امریکی سائنسدانوں نے نیویارک شہر کو ’چیونٹیوں کے لیے فرینڈلی شہر‘ بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Andrew Gombert
اپنا اپنا حصہ
کبوتر ہوں، کوّے یا پھر گلہریاں، یہ سبھی خوراک میں سے اپنا اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ ضائع کر دیے گئے یا پھر پھینک دیے گئے کھانے کا زیادہ تر حصہ حشرات کے بجائے بڑے جانوروں کے معدے میں جاتا ہے۔ کبوتر، کوّے اور کتے وغیرہ ہر قسم کے کھانے پر نظر رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago
شاندار مستقبل
ابھی تک انسان اتنی زیادہ خوراک ضائع کرتا ہے یا پھینک دیتا ہے کہ اس سے اربوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے حشرات، چوہے، کبوتر اور کوّے خوش ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جو ہمارے ماحول کے لیے بھی ضروری ہے۔