حکومتی جماعت سی ڈی یو کے اہم ارکان بھنگ یا گانجے کو قانونی قرار دینے پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔ جرمنی کی اہم جماعتیں پہلے ہی اس کے حق میں ہیں۔
اشتہار
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی اب تک واضح طور پر بھنگ، گانجے یا گَردے کی جرمنی میں قانونی فروخت کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں کے دوران چانسلر میرکل کی جماعت کے اہم ارکان اسے جائز قرار دینے کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سی ڈی یو کی داخلی پالیسی سے متعلق ترجمان ماریان ویڈٹ نے جمعے کو مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''کاشت اور تقسیم کے منظم طریقے طے کرکے ذاتی استعمال کے لیے کانابِس (بھنگ) کے استعمال کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس فیصلے سے پولیس اور عدلیہ پر بوجھ کم ہو گا اور وسائل کو (منشیات کی) غیر قانونی فروخت روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔‘‘
وینڈٹ کے اس بیان سے قبل جرمن حکومت کی ڈرگ کمشنر ڈینیلا لڈوگ نے بھی منشیات سے متعلق پالیسی میں نرمی کا عندیہ دیا تھا۔
جرمن ڈرگ کمشنر کا تعلق سی ڈی یو کی ریاست باویریا میں ہم خیال جماعت سی ایس یو سے ہے۔ انہوں نے رواں ہفتے کے اوائل میں ایک بیان میں کہا، ''ہمیں کٹر نظریاتی نقطہ نظر کے تحت صحیح اور غلط کی بحث سے نکلنا ہو گا کیوں کہ اس طرح ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے۔‘‘
وفاقی ڈرگ کمشنر نے یہ بھی کہا کہ منشیات سے متعلق کوئی بھی پالیسی عملی ہونا چاہیے۔ لڈوگ کے مطابق، ''ہمیں دیکھنا ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کی صحت کے لیے بہترین راستہ کیا ہے اور ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال میں اس وقت کون سی راہ زیادہ موزوں ہے۔ یقینی طور پر (بھنگ کے) ایک بار استعمال سے نشے کے عادی نہیں ہو جاتے اسی لیے ہم زیر نگرانی فروخت کے مختلف منصوبوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کئی برسوں سے بھنگ کی قانونی فروخت کے حوالے سے غورو غوض کر رہی ہیں۔
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
9 تصاویر1 | 9
قدامت پسندوں کی بدلتی سوچ
قدامت پسند جماعتوں، یعنی سی ڈی یو اور سی ایس یو کے ارکان کی جانب سے گانجے یا حشیش سے متعلق سوچ واضح طور پر بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ برس سی ایس یو سے ہی تعلق رکھنے والی مارلینے مورٹلر جرمنی کی وفاقی ڈرگ کمنشر تھیں اور تب انہوں نے کہا تھا، ''گانجے کی قانونی فروخت کے بارے میں مسلسل بحث غلط سمت میں جا رہی ہے۔ اس سے ہم نوجوان نسل کو پیغام دے رہے ہیں کہ یہ کوئی خطرناک شے نہیں اور یہ بات بالکل درست نہیں۔‘‘
موجودہ جرمن قوانین
اس وقت جرمنی میں گانجے یا بھنگ کی قانونی فروخت صرف طبی مقاصد کے لیے ہی ممکن ہے۔ بھنگ کے پودے اگانے، فروخت کرنے یا اس کی درآمد و برآمد کے لیے جرمنی کے وفاقی ادارہ منشیات و طبی آلات سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
جرمنی میں صرف انتہائی بیمار افراد ہی ڈاکٹر کی تجویز پر اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ گرَدا یا گانجا خریدنا یا فروخت کرنا جرم ہے تاہم اگر کسی شخص سے چھ گرام سے کم مقدار برآمد ہو تو عام طور پر اسے مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
گزشتہ برس کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں چالیس لاکھ سے زائد شہری گانجا، گردا، حشیش یا بھنگ کے پتے استعمال کر رہے ہیں اور ان میں سترہ فیصد کی عمریں اٹھارہ اور پچیس برس کے درمیان ہیں۔
اب تک چانسلر میرکل کی جماعت ہی منشیات کی فروخت سے متعلق سخت پالیسی کی حامی اور گانجے کی قانونی فروخت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ گرین پارٹی، بائیں بازو کی لنکے جماعت اور کاروبار دوست فری ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت سے گزشتہ برس گانجے کی قانونی فروخت سے متعلق قانون سازی کی کوشش کی گئی تھی لیکن سی ڈی یو کی مخالفت کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔