جرمنی میں گرین پارٹی لازمی فوجی سروس کی مجوزہ بحالی کے خلاف
31 دسمبر 2023
جرمنی میں ان دنوں یہ بحث جاری ہے کہ ملک میں وہ لازمی فوجی سروس بحال کر دی جائے جو برسوں پہلے ختم کر دی گئی تھی۔ اس بارے میں وفاقی مخلوط حکومت میں شامل گرین پارٹی کے سربراہ نے وزیر دفاع کی ممکنہ تجویز کی مخالفت کر دی ہے۔
اشتہار
ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے سربراہ امید نوری پور نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ملک میں لازمی فوجی سروس کا نظام دوبارہ بحال کر دیا جائے گا۔ انہوں نے برلن میں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں جرمنی میں لازمی فوجی سروس کے نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
برلن میں اس وقت وفاقی چانسلر اولاف شولس کیی قیادت میں جو مخلوط حکومت اقتدار میں ہے، اس میں تین جماعتیں شامل ہیں۔ یہ جماعتیں اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، وفاقی وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر کی قیادت میں ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی ہیں۔
اشتہار
ایسا نہیں ہو گا، گرین پارٹی کے سربراہ کا موقف
جرمن گرین پارٹی کے سربراہ امید نوری پور کے مطابق، ''میں فی الحال کسی بھی فیصلے کو ناممکن تو قرار نہیں دوں گا، کیونکہ ایسا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ موجودہ حالات بہت ہی متغیر اور غیر مستحکم ہیں۔‘‘
لیکن اس سوال کے جواب میں کہ آیا جرمنی میں نوجوان شہریوں کے لیے لازمی فوجی سروس بحال کی جا سکتی ہے، نوری پور نے کہا، ''مجھے تو ایسا ہوتا بالکل دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘
گرین پارٹی کے رہنما کے اس موقف سے قبل چانسلر شولس کی جماعت ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے اپنے ایک حالیہ اخباری انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ ملک میں لازمی فوجی سروس کی بحالی کن کن ممکنہ صورتوں میں کی جا سکتی ہے۔
وزیر دفاع نے اس ممکنہ فیصلے کی وجہ وفاقی جرمن فوج میں افرادی قوت کی کمی بتائی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی کے لیے ایک ممکنہ راستہ سویڈن کی طرف سے اپنایا گیا ماڈل بھی ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں لازمی فوجی سروس کا نظام کب ختم ہوا؟
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں لازمی فوجی سروس کا نظام مجموعی طور پر 55 برس تک نافذ رہا تھا اور 2011ء میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ تقریباﹰ 12 برس بعد اس کی ممکنہ بحالی سے متعلق بحث کا بڑا سبب فیڈرل جرمن آرمڈ فورسز میں افرادی قوت کی کمی اور یورپ میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال بنے۔
گرین پارٹی کے رہنما امید نوری پور نے کہا، ''یہ سچ ہے کہ اس وقت سلامتی کی صورت حال بہت کشیدہ ہے، بدقسمتی سے یورپی براعظم میں بھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمیں تمام ممکنہ راستوں پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
تاہم نوری پور نے یہ بھی کہا کہ انہیں جرمنی میں لازمی فوجی سروس کا نظام بحال ہوتا نظر نہیں آ رہا، کیونکہ اس بارے میں تو خود چانسلر شولس کی سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی داخلی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے)
وفاقی جرمن فوج، زلفوں کی لمبائی کا جھگڑا عدالت میں
وفاقی جرمن فوج کا ایک اہلکار شانوں تک لمبے بال رکھنا چاہتا ہے۔ عدالت نے فوجی کی اپیل مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی وفاقی جرمن فوج کو زلفوں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانے کا حکم بھی دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt
فوجی لیکن گوتھ کلچر کا حصہ
مدعی گوتھ کلچر کو پسند کرتا ہے۔ وہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر میں نظر آنے والے اس شخص کی طرح گوتھ اسٹائل کا دلدادہ ہے۔ نجی زندگی کے دوران تو لمبے بال مسئلہ نہیں ہیں لیکن دوران ڈیوٹی فوجی ضوابط کے تحت لمبے بال رکھنے کی ممانعت ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Prosch
سخت رویہ، نازک جلد
جرمن فوج کے قوانین کے مطابق سروس کے دوران ایک فوجی کے بال اس طرح ہونے چاہئیں کہ سیدھا کھڑا ہونے کی صورت میں بال نہ تو یونیفارم اور نہ ہی شرٹ کے کالر کو چھوئیں۔ یہ قانون صرف مرد فوجیوں کے لیے ہے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
خواتین کی چُٹیا
بنیادی تربیت سے پہلے مردوں کے برعکس خواتین فوجیوں کے بال نہیں کاٹے جاتے۔ اگر خواتین کے بال کندھوں سے بھی طویل ہیں تو انہیں چٹیا بنانی ہوتی ہے۔ عدالت کے مطابق یہ مردوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
خواتین فوجیوں کی تلاش
عدالت نے وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق خواتین لمبے بالوں کو حساس نسائیت کی وجہ سے پسند کرتی ہیں۔ جرمن فوج کو خواتین کے لیے پرکشش بنانے کی وجہ سے یہ اجازت دی گئی ہے۔
تصویر: Bundeswehr / Jonas Weber
لمبی داڑھی اور لمبی زلفوں کی اجازت؟
وفاقی انتظامی عدالت نے فوجی اہلکار کی اپیل تو مسترد کر دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا ہے کہ فوج اپنے ملازمین کی نجی زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہے، لہذا اسے اپنے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہو سکتا ہے جلد ہی جرمن فوجیوں کو لمبے بال اور لمبی داڑھی رکھنے کی اجازت مل جائے۔
تصویر: Bundeswehr/Jana Neumann
لڑائی سے پہلے بال تراشیں
تقریبا پچاس برس قبل وفاقی جرمن فوج کے اہلکاروں کو گردن کے پیچھے فیشن ایبل بال رکھنے کی اجازت تھی۔ سن 1971 میں ماتھے پر بھی لمبے بال رکھے جا سکتے تھے لیکن اس کے ایک برس بعد ہی یہ اجازت ختم کر دی گئی تھی۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
بیوروکریسی کے پھندے میں
ستر کی دہائی کے آغاز میں جرمن فوجیوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت تھی اور اسی وجہ سے بیرون ملک جرمن فوج کو ’جرمن ہیئر فورس‘ کہا جانے لگا تھا۔ لمبے بالوں کی وجہ سے جو صحیح طریقے سے ڈیوٹی سرانجام نہیں دے پاتا تھا، اسے بالوں کو قابو میں رکھنے والی ایک ٹوپی دی جاتی تھی۔ وفاقی جرمن فوج نے سات لاکھ چالیس ہزار جالی والی ٹوپیاں منگوائی تھیں۔
تصویر: Bundeswehr/Krämer
اپنے وطن کے لیے
اس فوجی کو خصوصی اجازت فراہم کی گئی تھی۔ سارجنٹ ہنس پیٹر کی یہ تصویر سن 2005 میں لی گئی تھی۔ جرمن فوج کا یہ اہلکار کلاسیک مونچھوں کے مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی جیت چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Weihs
چہرہ چھپائیے
جب خود کو دشمن کی نگاہوں سے چھپانے کی بات کی جائے تو پھر سب کچھ جائز ہے۔ یہ دونوں فوجی نشانچی ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں۔