جرمنی میں گزشتہ برس کم از کم اکیس بےگھر افراد قتل کر دیے گئے
18 مارچ 2021
جرمنی میں گزشتہ برس سڑکوں، فٹ پاتھوں یا دیگر پبلک مقامات پر شب بسری کرنے والے کم از کم اکیس بےگھر افراد قتل کر دیے گئے۔ ان میں سے تیرہ ہلاک شدگان ایسے تھے، جن کو قتل کرنے والے خود بھی بےگھر شہری تھے۔
اشتہار
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں 2020ء کے دوران مختلف شہروں میں ان کم از کم 21 انسانی ہلاکتوں کے بارے میں تفصیلات بے گھر افراد کی مدد کرنے والی ملکی تنظیم نے بتائیں۔ جرمنی میں بے گھر انسانوں کی مدد کرنے والے وفاقی ورکنگ گروپ (بی اے جی ڈبلیو) کے مطابق اس سال بھی اب تک ملک میں تین ایسے افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے، جن کے سروں پر اپنی کوئی چھت نہیں تھی۔
32 برسوں میں 586 پرتشدد ہلاکتیں
جرمن جریدے 'دی وَیلٹ‘ میں آج جمعرات اٹھارہ مارچ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بےگھر افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق جرمنی کی ملک گیر سطح پر فعال اس تنظیم نے بے خانماں شہریوں کے خلاف مہلک جرائم کے ارتکاب سے متعلق ڈیٹا جمع کرنے کا کام 1989ء میں شروع کیا تھا۔
اس تنظیم کے مطابق 1989ء سے آج تک جرمنی میں سینکڑوں پرتشدد جرائم میں مجموعی طور پر 586 بے گھر افراد ہلاک کر دیے گئے۔ ان میں سے 323 انسانی ہلاکتوں کے ذمے دار مجرم خود بھی بے گھر تھے۔
سخت سردی کے باعث انسانی اموات
مجرمانہ وارداتوں میں بے گھر افراد کی ہلاکتوں کے علاوہ ایسے افراد کی موت کی ایک اہم وجہ ملک میں شدید موسم سرما بھی بنتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ عملاﹰ گزشتہ برس ستمبر میں ہی شروع ہو جانے والے موجودہ موسم سرما کے دوران ملک بھر میں اب تک کم از کم 22 بےگھر افراد سردی سے ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے۔
اسکاٹ لینڈ میں بے گھر افراد کی مدد کرنے کے لیے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک ’سوشل بائٹ ولیج‘ نامی منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس میں لکڑی کے گھران افراد کے لیے بنائے گئے ہیں، جن کے پاس کوئی مستقل رہائش نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بالکل ایک تعطیلاتی گاؤں کی طرح
یہ ’سوشل بائٹ ولیج‘ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں بے گھر افراد کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے میں تعاون فراہم کرنے والے کھانے پینے کی اشیاء پہلے ہی مہیا کر دیتے ہیں، جنہیں بعد میں یہاں رہنے والے بے گھر افراد میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
چھوٹا اور صاف ستھرا
’سوشل بائٹ ولیج‘ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ بے گھر افراد کوصرف کھانا پینا فراہم کیا جائے بلکہ ایک مقصد انہیں چھت مہیا کرنا بھی ہے۔ اس گاؤں میں بیس افراد رہ رہے ہیں۔ یہ گھر چھوٹے اور انتہائی پائیدار ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
تمام سہولیات میسر
ان چھوٹے گھروں میں ایک ہی کمرہ ڈرائنگ اور ڈائننگ روم ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سے باورچی خانہ بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے کمرے میں غسل خانہ ہے۔ یہ بہت پر تعیش تو نہیں مگر سڑکوں پر راتیں بسر کرنے سے بہت بہتر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
لکڑی کا استعمال
یہ تمام گھر لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔ لکڑی کے ساتھ ساتھ پچیس سینٹی میٹر موٹائی والی انسولیشن بھی لگائی گئی ہے تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
گرم اور آرام دہ
ان گھروں میں خواب گاہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اس کمرے کو کم جگہ استعمال کرتے انتہائی آرام دہ بنایا گیا ہے۔ بے گھر افراد طویل عرصے تک یہاں قیام نہیں کر سکتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
سویٹ ہوم
بے گھر افراد کو رہنے میں جتنا بھی مزہ آ رہا ہو، اٹھارہ ماہ سے زیادہ یہاں کوئی قیام نہیں کر سکتا۔ اس دوران ’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان بے گھر افراد کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
اپنی مدد آپ
’سوشل بائٹ ولیج‘ کے کارکن ان کو بھی تعاون فراہم کرتے ہیں، جو ماضی میں بے گھر افراد کے اس گاؤں کا حصہ رہ چکے ہوں۔ انہیں روزگار کی تلاش اور روز مرہ زندگی کے حوالے سے اہم معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والے دونوں افراد ماضی میں بے گھر تھے اور اب ’سوشل بائٹ ولیج‘ منصوبے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
بے گھر ہونے کے خلاف جنگ
جوش لٹل جون بے گھر ہونے کی حالت کے خاتمے کے لیے جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ اس منصوبے کے شریک بانی بھی ہیں۔ شاید یہ منصوبہ اسکاٹ لینڈ کے دیگر حصوں کے لیے بھی ایک مثال بن جائے یا پھر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کے منصوبے شروع کر دیے جائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Buchanan
8 تصاویر1 | 8
بی اے جی ڈبلیو کی ناظم الامور ویرینا روزینکے کے مطابق بےگھر افراد کی پرتشدد واقعات میں یا انتہائی سرد موسم کے باعث ہلاکتوں سے متعلق یہ وہ اعداد و شمار ہیں، جو مقامی یا علاقائی میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ تاہم ایسی ہلاکتوں کی اصل تعداد اس لیے بہت زیادہ ہو سکتی ہے کہ ایسے کئی واقعات یا جرائم رونما تو ہوتے ہیں مگر وہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے۔
ویرینا روزینکے نے جریدے 'دی وَیلٹ‘ کو بتایا، ''بےگھر افراد کے خلاف جن مہلک جرائم کے مرتکب افراد خود بےگھر نہیں ہوتے، ان کا ارتکاب زیادہ تر انسانوں سے نفرت یا دائیں بازو کی انتہا پسندی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔‘‘
بے خانماں افراد کی مدد کرنے والی اس جرمن تنظیم کی سربراہ نے کہا، ''بے گھر افراد اپنی زندگی میں سماجی سطح پر دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے انسان اپنی موت کے بعد دوسرے درجے کے مقتولین یا ہلاک شدگان بھی بن جاتے ہیں۔‘‘
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔
انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''ملک میں عام شہریوں کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان کی تفتیش کے لیے تو کافی زیادہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ لیکن جب انہی جرائم کا ارتکاب بےگھر افراد کے خلاف کیا جاتا ہے، تو ان کی چھان بین پر اس حوالے سے بہت زیادہ عملی توجہ نہیں دی جاتی کہ مجرم کون تھے، کس طرح کی ذہنیت کے مالک تھے اور انہوں نے ان جرائم کا ارتکاب کیوں کیا؟‘‘
اشتہار
برلن میں بے گھر افراد کے خلاف جرائم
جرمنی کی ایک شہری ریاست اور وفاقی دارالحکومت برلن ایک ایسا صوبہ ہے، جہاں پولیس کی طرف سے گزشتہ چھ برسوں سے بےگھر افراد کے خلاف جرائم کا باقاعدہ علیحدہ سے ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
2015ء میں ملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں بے گھر انسانوں کے خلاف 196 پرتشدد جرائم ریکارڈ کیے گئے تھے اور گزشتہ برس یہ سالانہ تعداد دو گنا سے بھی زیادہ ہو کر 478 رہی تھی۔
م م / ع س (کے این اے، دی ویلٹ)
ایران میں بے گھر افراد
ایران میں ہزاروں افراد بے گھری پر مجبور ہیں جب کہ ناقدین اس کی ذمہ داری صدر حسن روحانی پر عائد کرتے ہیں۔
تصویر: IRNA
حد سے باہر
دسمبر کی ایک سرد رات میں، قریب ساڑھے سات سو بے گھر افراد تہران میں خواران نامی اس مقام پر موجود ہیں۔ اس سے قبل اس جگہ کبھی ایک رات میں چار سو سے زائد افراد جمع نہیں ہوئے۔
تصویر: IRNA
گرم ٹھکانہ
خواران ہال چھ سو افراد کو چھت مہیا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سرد راتوں میں مگر یہاں گیارہ سو افراد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس مقام پر مزدوروں کو بھی رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں کھانا اور سونے کی جگہ دی جاتی ہے۔ ایران میں بے گھری کی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔
تصویر: Irna
گتے کے گھر
بے گھر افراد متعدد مقامات پر ہاتھ سے بنائے گئے یہ ٹھکانے بھی بنا لیتے ہیں۔ گتوں سے بنے یہ گھر ’کارٹن خواب‘ کہلاتے ہیں۔ دسمبر میں ایک 28 سالہ شخص ایک زیر تعمیر عمارت میں مردہ حالت میں ملا تھا۔ گتے سے بتائے گئے گھروں میں ہلاک متعدد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: shabestan.ir
بچوں کے گھر
گزشتہ برس اگست میں یہ تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آئی۔ گتے کا بچوں کا یہ ٹھکانہ تصویر میں دکھا کر انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے اقدامات کی اپیل کی تھی۔
تصویر: tnews
تباہ کن حالت
حکومت کی جانب سے بے گھروں کے لیے ایک منصوبے کے آغاز کے بعد اخبارات میں شائع ہوا کہ ان بے گھر افراد کو خالی قبروں میں رکھا جا رہا ہے اور بہت سے افراد نصیرآباد شہر میں کھلی قبروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Isna
ذمہ داری روحانی پر
حکام نے قبرستان سے ان بے گھر افراد کو زبردستی ہٹا دیا۔ قدامت پسند اس معاملے کو صدر روحانی پر تنقید کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ روحانی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: shahrvanddaily.ir
زچگی کے مسائل
گزشتہ سردیوں میں بے گھر خواتین میں سے تین فیصد حاملہ تھیں۔ منشیات کی عادی زیادہ تر خواتین اس خوف سے طبی مراکز نہیں جاتی، کیوں کہ انہیں قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہوتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق چند خواتین مختلف گروہوں کو اپنے بچے فروخت تک کر دیتی ہیں۔
تصویر: Tasnimnews
بے گھر افراد کے لیے کام
امدادی ادارے ایران میں کئی دہائیوں سے ان بے گھر افراد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ہزاروں افراد کو خوراک اور چھت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔