جرمنی میں ماہر یا ہنرمند افرادی قوت کی کمی میں گزشتہ برس کافی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ بات ایک تازہ سروے کے اعداد و شمار سے معلوم ہوئی ہے۔
اشتہار
گزشتہ برس یعنی2021ء کے دوران جرمنی کو درکار ہنر مند افراد کی کمی ایک برس کے عرصے میں دو گُنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ ایک اسٹڈی کے مطابق جرمنی بھر میں گزشتہ برس جنوری میں ایسی خالی ملازمتوں کی تعداد 213,000 تھی جن کے لیے درکار مناسب قابلیت کے حامل ملازمین دستیاب نہیں تھے۔ تاہم دسمبر میں یہ تعداد بڑھ کر 465,000 تک پہنچ چکی تھی۔
یہ اعداد وشمار ایک پرائیویٹ جرمن اکنامک انسٹیٹیوٹ (آئی ڈبلیو) نے اپنے اسکلڈ لیبر پراجیکٹ کے تحت جمع کیے ہیں۔ آئی ڈبلیو نامی تھنک ٹینک لبرل معاشی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔
اس اسٹڈی سے معلوم ہوا کہ 2021ء کے دوران مذکورہ بالا شعبوں میں اوسطاﹰ ہر 10 میں سے آٹھ ملازمتیں اس وجہ سے خالی رہیں کیونکہ بے روزگار افراد میں سے اس اہلیت کے حامل افراد دستیاب ہی نہیں تھے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
اسی اسٹڈی کے مطابق عمومی طور پر ملازمتوں کے دستیاب مواقع کے مقابلے میں درکار اہلیت کے حامل ورکرز کی سب سے زیادہ کمی صحت اور سوشل سروسز کے شعبوں میں موجود ہے، جس کے فوری بعد تعمیراتی صنعت، آرکیٹیکچر، سرویئنگ اور بلڈنگ سروس انجینیرنگ کے شعبوں کا نمبر آتا ہے۔
گزشتہ برس کے دوران جرمنی میں نیچرل سائنسز، جیوگرافی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ملازمتوں کے لیے درکار قابلیت رکھنے والے افراد کی تعداد میں کمی میں اضافہ ہوا ہے۔ لینگوئج، لٹریچر، ہیومینیٹیز، سوشل اور اکنامک سائنسز اور میڈیا، آرٹ، کلچر اور ڈیزائن کے شعبوں میں ہنرمند افراد کی جو کمی پہلے تھی اس کے مقابلے میں گزشتہ برس کے دوران صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے۔