جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ایک انتباہی بیان میں کہا ہے کہ جرمنی میں مزدوروں کی کمی کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس وجہ سے کاروبار دوسرے ممالک منتقل ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ہفتہ وار بیان میں لیبر مارکیٹ میں افرادی قوت کی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو بہت سی کمپنیاں دوسرے ممالک منتقل ہو سکتی ہیں۔ میرکل کے بقول،''ہمیں علم ہے کہ کئی شعبے اور کاروبار ہنر مند مزدوروں کی تلاش میں ہیں۔ معقول تعداد میں مزدروں کے بغیر کاروبار کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ہنر مند افراد کو تلاش اور انہیں بھرتی کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں۔ وگرنہ کاروباری ادارے ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور یقیناً ہم یہ نہیں چاہتے۔‘‘
جرمنی کو امید ہے کہ وہ کاروبار کو کسی اور ملک منتقل کیے جانے سے بچانے کے لیے یورپی یونین کے باہر کے ممالک سے تربیت یافتہ اور تجربہ کار مزدوروں تلاش کر لیں گے۔ مزدوروں کے خلا کو پُر کرنے کے لیے برلن کی نظریں آج کل میکسیکو، ویتنام اور بھارت پر لگی ہوئی ہیں۔
چانسلر میرکل کے مطابق جرمنی چاہتا ہے کہ مقامی لوگوں کو بہترین تربیت فراہم کرتے ہوئے اس مسئلے پر قابو پایا جائے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے تقریباً ڈھائی ملین افراد پہلے ہی جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔ میرکل کے بقول، ''یہ کافی نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں یورپی یونین سے باہر سے بھی لوگوں کی تلاش ہے۔
دنیا کا سخت ترین کام
مٹی، دھول اور گرمی۔ انڈونیشیا کے علاقے مشرقی جاوا میں واقع ایک فعال آتش فشاں سے مزدور سلفر یا گندھک نکالتے ہیں اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Archambault
انتہائی زیادہ درجہ حرارت
انڈونیشیا کے علاقے مشرقی جاوا میں واقع ایجن آتش فشاں سے سلفر یا گندھک نکالی جاتی ہے۔ 2600 میٹر بلند اس آتش فشاں کے دھانے میں سلفیورک ایسڈ یا گندھک کے تیزاب کی 200 میٹر گہری جھیل موجود ہے جس میں سے گیسیں نکلتی رہتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Indahono
نیلے رنگ کا معجزہ
200 ڈگری درجہ حرارت رکھنے والی سلفر گیس جب نکلتی ہے تو اندھیرے میں یہ نیلے رنگ کی چمکدار روشنی خارج کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ مزدور وقت سحر اپنا کام شروع کرنے سے قبل اس حیرت انگیز نظارے کو دیکھ رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Goh Chai Hin
خطرناک مصروفیت
یہ کام دنیا کا خطرناک ترین کام کیوں ہے؟ زہریلی گیسیں مزدوروں کے پھیپھڑوں اور جلد کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ مزدور ایسا حفاظتی لباس پہن کر اس کان کے اندر کام کرتے ہیں اور زہریلی گیس میں سانس لیتے ہیں، جو بمشکل ان کا محافظ ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Goh Chai Hin
پیلا سونا
مزدور سلفر کے بخارات کو پائپوں کے ذریعے کان کے اندر داخل کرتے ہیں جہاں یہ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ ہوا لگنے پر یہ ٹھوس قلموں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس طرح جیسے گندھک کے ڈھیر وجود میں آ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Indahono
بھاری بوجھ
یہ مزدور اپنے کندھوں پر قریب 80 کلوگرام وزن اٹھائے ہوئے ہے۔ اسے چار کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرنا ہے اور اس نے صرف ربڑ کے بُوٹ پہن رکھے ہیں۔ ایک غلط قدم اور یہ گر بھی سکتا ہے۔ یہ بات اس کے لیے خوفناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Goh Chai Hin
زندگی کو لاحق خطرہ
مزدور آتش فشاں کے دہانے میں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ بھاپ پھیپھڑوں اور دماغ میں داخل ہوتی ہے۔ چند ہفتوں بعد یہ مزدور سونگھنے اور ذائقے کی حس کھو بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران یہاں 70 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہاں مردوں کی اوسط عمر صرف 50 برس ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Archambault
گندھک نکالنے کے متروک طریقے
پیلے رنگ کا مادہ گندھک چینی کو سفید کرنے اور ماچس اور کھاد کی تیاری کے لیے فیکٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 19ویں صدی تک اٹلی، نیوزی لینڈ اور چِلی میں بھی گندھک کو کانوں سے نکالا جاتا تھا۔ آتش فشاں سے نکلنے والے مادے اور جدید طریقوں کے سبب اب یہ کام قدرے آسان ہو گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
بہت سخت کام کا کافی معاوضہ؟
اس آتش فشاں کے دہانے میں روز 100 کے قریب مزدور اُترتے ہیں اور انہیں اس کام کے عوض فی کس سات سے آٹھ یورو یومیہ ملتے ہیں۔ یہ لاگت سلفر کی درآمدی قیمت سے کہیں کم ہے۔ دوسری طرف یہ رقم انڈونیشیا میں یومیہ اجرت کے طور پر کافی زیادہ بنتی ہے۔
تصویر: picturea-alliance/Acro Images/T. Weise
8 تصاویر1 | 8
جرمنی میں تربیت یافتہ مزدوروں کی امیگریشن کے حوالے سے قانون کی ایک نئی شق پر یکم مارچ 2020ء سے عمل درآمد شروع ہو رہا ہے، جس کے بعد امید ہے کہ یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے مزدوروں کی جرمنی آمد قدرے سہل ہو جائے گی۔
میرکل کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب پیر 16 دسمبر سے برلن میں ایک ایسا اجلاس منقعد ہو رہا ہے، جس میں حکومتی اور آجر اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی تنظیمیں بھی شرکت کر رہی ہیں۔ اس اجلاس کے دوران ہنر مند افراد کی امیگریشن پر بہترین طریقے سے عمل درآمد کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔ امید ہے کہ اس اجلاس کے اختتام پر فریقین کے مابین کسی مفاہمتی یادداشت پر اتفاق رائے ہو جائے۔
جرمنی کو الیکٹرکل انجینئرز، میکاٹرونک انجینئیرز، باورچی، نرس، بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے شعبے میں افراد، کمپیوٹر سائنس اور سافٹ ویئر ماہرین کے ساتھ ساتھ فولاد کی صنعت میں کام کرنے والے ہنر مندوں کی ضرورت ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن اور اس کی تاریخ
مزدور تنظیمیں اور تحریکیں گزشتہ 150 برسوں میں بہت کچھ حاصل کر چکی ہیں۔ اس کی جڑیں اس صنعتی دور سے جڑی ہوئی ہیں، جب مزدورں نے فیکڑی مالکان کے استحصالی رویے کے خلاف بغاوت کی تھی۔
تصویر: Getty Images
صنعتی انقلاب کے فائدے اور نقصانات
صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام پر برطانیہ میں ہوا۔ جہاں تکنیکی ترقی ہوئی ، وہاں سماجی بحرانوں نے بھی جنم لیا۔ صنعتی پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مزدورں نے فیکٹری مالکان کے استحصالی طریقوں کے خلاف آواز بلند کی۔ سب سے پہلا احتجاج برطانیہ میں ہوا، جہاں مشینوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد نے توڑ پھوڑ کی۔
تصویر: imago/Horst Rudel
کمیونسٹ منشور
دوسری جانب صنعتی یونٹس میں کام کرنے والوں کے حالات بھی بُرے تھے۔ انہیں دن میں زیادہ وقت کام کرنا پڑتا، اجرت کم تھی اور حقوق نہ ہونے کے برابر۔ انہوں نے اتحاد قائم کیا۔ کارل مارکس (تصویر) اور فریڈرک اینگلز نے مظلوم کارکنوں کو ’کمیونسٹ منشور‘ نامی پروگرام دیا۔ اس کا مقصد طبقاتی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے غریب طبقے کی متوسط طبقے کے خلاف جیت تھی۔
تصویر: picture-alliance /dpa
مزدور تحریک سے سیاسی تحریک
سن 1864ء میں پہلی مرتبہ مختلف مزدور تنظیمیں نے بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے اتحاد کیا۔ نتیجے کے طور پر ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، مثال کے طور پر جنرل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن (ADAV) اور سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی (SDAP) کا ظہور ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کے اتحاد سے سیاسی جماعت ایس پی ڈی وجود میں آئی، جو آج بھی جرمن سیاست کا لازمی جزو ہے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
سوشلسٹ بمقابلہ کمیونسٹ
جرمن سوشل ڈیموکریٹک جماعت دیگر یورپی ملکوں کے لیے ایک مثال بنی۔ اس جماعت کی مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ نظریاتی طور پر متاثرکن تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سے یورپی ملکوں میں مزدور تحریک سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ کیمونسٹ لینن (تصویر) نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی، جو تقریباﹰ 70 برس قائم رہا۔
تصویر: Getty Images
نازیوں کے ہاتھوں یونینز کی تحلیل
تقسیم کے باوجود 1920ء کی دہائی میں مزدور تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یونینز کے پہلے کبھی بھی اتنے زیادہ رکن نہیں تھے۔ جرمنی میں نیشنل سوشلسٹوں کے اقتدار میں آنا ان کے لیے خاتمے کا سبب بنا۔ آزاد یونینز کو تحلیل کر دیا گیا۔ بہت سے یونینز عہدیداروں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور چند ایک کو پھانسی بھی دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈی ڈی آر میں بغاوت
دوسری عالمی جنگ کے بعد ڈی ڈی آر میں آزاد جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (FDGB) کی چھتری تلے اور اتحادیوں کے زیرنگرانی یونینز کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 17 جون 1953ء کو وہاں بغاوت کا سماں تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مزدور کارکنوں نے سیاسی قیادت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ سوویت فوجیوں نے فسادات کو کچل دیا۔ اس وقت FDGB حکومت کے ساتھ تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
مزدور تحریک بغیر مزدوروں کے
سن 1945ء کے بعد جمہوری ریاستوں میں مزدور تحریک کی اہمیت میں نمایاں کمی ہوئی۔ بہت ہی کم صنعتی کارکن یونینز کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں خواتین اور ماحول سے متعلق نئی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یونین کے صدر سے ملکی صدر
جو مزدور یونین ملکی سرحدوں سے بھی باہر نام بنانے میں کامیاب رہی وہ پولینڈ کی ’یکجہتی‘ نامی تنظیم تھی۔ اس کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی اور چند ماہ بعد ہی یہ ایک عوامی تحریک میں بدل گئی۔ دس برس بعد اس کا سیاست میں کردار انتہائی اہم تھا۔ اس کے پہلے چیئرمین لیک والیسا 1990ء میں پولینڈ کے صدر بنے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آج کی مزدور تحریک
آج بھی ٹریڈ یونینز اور بائیں بازو کی جماعتیں بہترکام اور اچھے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ، کم اجرتوں اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ آج یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع پر جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (DGB) نے اپنا موٹو ’’بہتر کام، سوشل یورپ‘ رکھا ہے۔