جرمنی میں یورپی تارکین وطن کے لیے مراعات میں کمی کا منصوبہ
شمشیر حیدر28 اپریل 2016
جرمنی نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو فراہم کی جانے والی سماجی مراعات کم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یورپی یونین نے ایک ڈیل کے تحت حال ہی میں برطانیہ کو ایسا قانون لاگو کرنے کی اجازت دی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمنی ایک ایسے قانونی مسودے پر کام کر رہا ہے جس کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک سے نقل مکانی کر کے جرمنی میں آباد ہونے والے تارکین وطن کو فراہم کردہ مراعات کم کر دی جائیں گی۔
جرمنی کی وفاقی وزیر محنت آندریا نالَیس ایک ایسے قانونی مسودے پر کام کر رہی ہیں جس کے مطابق جرمنی میں مقیم بے روزگار یورپی باشندوں کو سوشل سکیورٹی جیسی سہولیات صرف اسی صورت میں دی جائیں گی کہ انہوں نے جرمنی میں کم از کم پانچ سال تک کام کیا ہو۔
یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے تارکین وطن، جو اس شرط پر پورا نہیں اتریں گے، انہیں صرف چار ہفتوں کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ اس دوران یہ لوگ اپنے وطن واپس جانے کے لیے قرضہ لے سکیں گے جہاں وہ سوشل سکیورٹی حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دے سکیں گے۔
اس سے پہلے برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین ایسا ہی ایک معاہدہ طے پا چکا ہے۔ یورپی یونین کے رکن مشرقی یورپی ممالک نے برطانیہ کے اس فیصلے کو اپنے شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا تھا۔
برلن حکومت یورپی یونین کے شہریوں کو فراہم کی جانے والی سوشل سکیورٹی میں اس قسم کی کٹوتیوں کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی ہے تاہم اسے اپنا موقف گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں اس وقت تبدیل کرنا پڑ گیا تھا جب جرمنی کی وفاقی عدالت نے ایک ایسا فیصلہ سنایا تھا جس کے مطابق چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے جرمنی میں مقیم یورپی شہریوں کو جرمنی میں مکمل سماجی مراعات فراہم کیے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالتی فیصلہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے بے روزگار تارکین وطن پر بھی لاگو کر دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کے ایسے ممالک، جہاں فراہم کی جانے والی سماجی سہولیات جرمنی کی نسبت بہت کم ہیں، سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑے پیمانے پر جرمنی کی جانب نقل مکانی کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔
اگرچہ اب تک ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی لیکن جرمن وزیر محنت کا کہنا تھا، ’’جرمنی میں دیگر ممالک میں سوشل سکیورٹی اور تنخواہوں میں بہت زیادہ فرق ہونے کی وجہ سے ہم اس قانونی سقم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
جرمن کابینہ کی جانب سے اس قانونی مسودے کی منظوری کی صورت میں اسے حتمی منظوری کے لیے جرمن پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔