جرمنی کو ہنر مند افراد کی فوری ضرورت ہے اور اسی لیے برلن حکومت نئے امیگریشن قوانین متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔ ان مجوزہ قوانین کے چند اہم نکات پر ایک نظر۔
اشتہار
جرمن روزگار کی منڈی میں ہنر مند افراد کی شدید کمی ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے جلد ہی نئی امیگریشنی پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے دیگر وزارتوں کی مشاورت کے ساتھ اس قانون کا مسودہ تیار کر لیا ہے جسے 29 اگست کے روز چانسلر میرکل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ مسودہ ڈی ڈبلیو کی نظر سے بھی گزرا اور اس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
وزارت داخلہ کے تیار کردہ اس مسودے میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ جرمن روزگار کی منڈی میں ہنر مند افراد کی فوری ضرورت ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے ہنر مند افراد کو بھی جرمنی لانا پڑے گا۔
’پوائنٹس سسٹم‘ نہیں بنایا گیا
کینیڈا، آسٹریلیا اور کئی دیگر ممالک کے برعکس برلن حکومت نے ’پوائنٹس سسٹم‘ اختیار کرنے کی بجائے ’کی-پوائنٹ سسٹم‘ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پوائنٹس سسٹم میں تعلیمی قابلیت، آمدن، زبان سے واقفیت سمیت کئی دیگر حوالاجات سے اسکور جمع کیا جاتا ہے اور اگر یہ اسکور ایک خاص درجے سے زیادہ ہو تو امیگریشن ممکن ہو سکتی ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے گزشتہ برس ایسے نظام کی حمایت کی تھی۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک ہیں، ٹاپ ٹین
اقوام متحدہ کے مطابق دسمبر 2017ء تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 258 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
۱۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 کے اواخر تک قریب ایک کروڑ ستر لاکھ (17 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
۲۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو ایک کروڑ تیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی نوے فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
۳۔ روس
تیسرے نمبر پر روس ہے جس کے ایک ملین سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2017 تک ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد چوالیس لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
۵۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے تیار کردہ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچہتر لاکھ سے زائد بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔
تصویر: DW
۶۔ شام
خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے قریب ستر لاکھ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں چھبیسویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
۷۔ پاکستان
ساٹھ لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
۸۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے اختتام تک 5.9 ملین یوکرائینی شہری بیرون ملک آباد ہیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
۹۔ فلپائن
ستاون لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائینی شہریوں کی تعداد تیس لاکھ تھی۔ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائینی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
۱۰۔ برطانیہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں برطانیہ دسویں نمبر پر ہے جس کے قریب پچاس لاکھ شہری دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 8.8 ملین بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Nichols
۱۱۔ افغانستان
آخر میں پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اڑتالیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری وطن سے باہر مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک بائیس لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔
تصویر: DW/Omid Deedar
11 تصاویر1 | 11
تاہم مجوزہ امیگریشن پالیسی کے مطابق امیگریشن کے خواہش مند افراد کو درکار تعلیمی قابلیت اور جرمن زبان سے واقفیت کے علاوہ جرمنی میں ’ملازمت کی مصدقہ پیشکش‘ بھی چاہیے ہو گی۔ امیگریشن امور کے ماہر تھوماس لیبِش کے مطابق نئے جرمن قوانین میں اگرچہ پوائنٹس سسٹم کا تذکرہ نہیں کیا گیا لیکن عملی طور پر اس میں بھی ایک طرح سے اسکور کو ہی شمار کیا جائے گا۔
درمیانے درجے کے ہنرمندوں کی ضرورت زیادہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے جرمن امیگریشن پالیسی دیگر ممالک کی نسبت انتہائی آسان ہے۔ تعلیمی قابلیت اور جرمنی میں ملازمت کی پیشکش موجود ہو تو امیگریشن کا عمل نہایت آسان ہے۔ تاہم روزگار کی جرمن منڈی میں سب سے زیادہ ضرورت درمیانے درجے کے ہنر مند افراد کی ہے جن میں تعمیرات کے شعبے سے لے کر نرسوں، الیکٹریشنز اور بڑھئیوں کی ضرورت نمایاں ہے۔
اس ضمن میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ مختلف ممالک میں ان شعبوں میں فراہم کی جانے والی پیشہ ورانہ تربیت یکساں نہیں اور ان میں سے بہت کم کو جرمنی میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ نئے مسودے میں بھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکومت ایسے شعبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہنر مند افراد کی شناخت کیسے کرے گی اور انہیں کس طرح جرمنی کی جانب راغب کیا جائے گا۔
ڈنمارک کی پالیسی رول ماڈل؟
جرمن حکومت اس امر پر غور کر رہی ہے کہ ڈنمارک کی طرح جرمنی میں بھی ’درمیانے درجے کے ہنر مند‘ افراد کو ’جاب سرچ‘ یا ملازمت کی تلاش کے لیے ویزا دیا جائے۔ یوں ایسے ہنر مند افراد جرمنی آ کر ملازمت تلاش کر پائیں گے اور اگر وہ روزگار کے حصول میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں مزید قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ جرمنی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے ’جاب سرچ ویزا‘ کی سہولت تو پہلے سے موجود ہے تاہم ہنر مند افراد کے لیے ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا۔
لیبش کے مطابق یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد اس کی کامیابی کا انحصار اس امر پر ہو گا کہ جرمن کمپنیاں اور آجر ’جاب سرچ ویزا‘ کے حامل افراد کو نوکریاں دینے کا رسک لینے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔
ش ح / ع ب (بینجمن نائٹ)
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔