جرمن پولیس نے چین سے تعلق رکھنے والے دو ایسے سیاحوں کو حراست میں لے لیا، جو برلن میں ’رائش ٹاگ‘ کی عمارت کے سامنے ’نازی سیلوٹ‘ کرتے ہوئے تصاویر بنوا رہے تھے۔
اشتہار
جرمنی میں نازیوں کی طرح سیلوٹ کرنے سمیت نازی دور کی کسی بھی علامت کا استعمال قابل سزا جرم ہے اور ان دونوں چینی سیاحوں کو اس جرم کا ارتکاب کرنے پر مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہفتے کی شام برلن پولیس کی خاتون ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں چینی باشندوں کو پانچ سو یورو مالیت کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
’مائن کامپف‘ ایک بار پھر کتابوں کی دکانوں پر
02:45
قبل ازیں ان دونوں سیاحوں کو، جن کی عمریں 36 اور 49 برس بتائی گئی ہیں، جرمن پولیس نے برلن کی تاریخی عمارت ’رائش ٹاگ‘ کے سامنے سے حراست میں لے لیا تھا۔ ہفتے کی صبح اس تاریخی عمارت پر تعینات ایک سکیورٹی گارڈ نے ان دونوں افراد کو ’نازیوں جیسا سیلوٹ‘ کرتے ہوئے موبائل فون کے ذریعے تصاویر بناتے ہوئے دیکھا تھا۔
سکیورٹی گارڈ نے مقامی پولیس کو اطلاع کر دی جس کے بعد دونوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق اب جرمنی میں چھٹیاں منانے کے لیے آئے ان دونوں چینی شہریوں کو ’ممنوعہ تنظیم کی علامات‘ استعمال کرنے کے مقدمے کا سامنا ہے۔
جرمن قوانین کے مطابق اس جرم میں تین برس قید، جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مقامی پولیس کی خاتون ترجمان کا تاہم کہنا تھا کہ دونوں سیاح تحقیقات کے دوران جرمنی چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق اس مقدمے میں اگر انہیں جرمانے کی سزا سنائی گئی تو ممکنہ طور پر زر ضمانت کافی ہو گا۔
جدید جرمنی میں نازی جماعت پر پابندی عائد ہے اور اس پارٹی کے زیر استعمال رہنے والی تمام تر علامات کے استعمال کی اجازت صرف تدریسی یا تحقیقی مقاصد کے لیے ہی دی جاتی ہے۔ جرمنی میں اب بھی سواستکا اور دیگر نازی دور کی علامات کو نہ صرف فلموں بلکہ ویڈیو گیمز سے بھی سنسر کر دیا جاتا ہے۔
رائش ٹاگ کی عمارت بھی جرمن تاریخ کے اُس تاریک دور میں کئی تلخ واقعات کا مرکز رہی ہے۔ سن 1933 میں اس عمارت کو آگ لگا دیے جانے کے بعد ہٹلر کی حکومت نے اس کا الزام کمیونسٹوں پر عائد کرتے ہوئے تمام ’ریاست دشمن‘ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نازیوں نے خود ہی رائش ٹاگ کو آگ لگائی تھی اور پھر اس واقعے کو نازی مخالف لوگوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔