1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: نرسنگ کے شعبے میں تارکین وطن کی تلاش

عاصم سليم18 دسمبر 2013

يورپی ملک جرمنی ميں عمر رسيدہ افراد کی ديکھ بھال کے ليے قائم کردہ خصوصی مراکز ميں اس شعبے سے منسلک افراد کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت ملک بھر ميں کئی مقامات پر متعدد نئے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

تصویر: DW/B. Fazlagic-Sestic

قريب دس برس تک اپنی ازدواجی وگھريلو ذمہ دارياں پوری کرنے کے بعد پينتيس سالہ اسماء حیدری کو ايسا لگا کہ اب انہيں دوبارہ کوئی ملازمت کرنی چاہيے۔ کسی مناسب نوکری کی تلاش کے دوران ہی حیدری کی ملاقات نرگس يلاغی سے ہوئی، جو جرمن شہر فرينکفرٹ کے جڑواں شہر اوفن باخ ميں ايک ايسا ادارہ چلاتی ہيں، جو بزرگ افراد کی ديکھ بھال کے ليے تربيت فراہم کرتا ہے۔

يلاغی کا ادارہ اس شعبے يا کام ميں دلچسپی رکھنے والے افراد کو نہ صرف تربيت و مشاورت فراہم کرتا ہے بلکہ تربيت مکمل ہونے پر ملازمت دلوانے ميں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ تربيت کے خواہاں افراد کو ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد چند مہينوں کی ’انٹرن شپ‘ کرنی پڑتی ہے۔ اگرچہ ابتداء ميں حیدری کو کچھ دشواری پيش آئی ليکن آہستہ آہستہ انہيں اپنے کام، اپنے ساتھيوں اور نرسنگ ہوم ميں مقيم بوڑھے افراد سے لگاؤ پيدا ہونے لگا اور يوں انہوں نے جان ليا کہ يہ کام ان کے ليے مناسب ہے۔

جرمنی ميں اس وقت قريب 2.4 ملين افراد ايسے ہيں، جنہيں نرسنگ يا ديکھ بھال کی ضرورت ہےتصویر: GKT Service/Carework

تيونس سے تعلق رکھنے والی اسماء حیدری کا شمار ان انيس خواتین ميں ہوتا ہے، جنہوں نے نرگس يلاغی کی کاوشوں کی بدولت اوفن باخ کے اس ادارے سے يہ تربيت مکمل کی، جس سے ان کے ليے ملازمت کے بيش بہا نئے مواقع کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

يورپ کی سب سے مستحکم معيشت کے حامل ملک جرمنی کا ايک اہم مسئلہ يہاں بسنے والے عمر رسيدہ افراد کی ايک بڑی تعداد ہے، جسے معاشی زبان ميں ’ايجنگ پاپوليشن‘ کہا جاتا ہے اور روايتی طور پر اسے کسی ملک کی اقتصاديات کے ليے زيادہ اچھا تصور نہيں کيا جاتا۔

جرمنی ميں اس وقت قريب 2.4 ملين افراد ايسے ہيں، جنہيں نرسنگ يا ديکھ بھال کی ضرورت ہے۔ اندازوں کے مطابق سن 2030 تک يہ تعداد 3.4 ملين تک پہنچ سکتی ہے اور اس صورتحال ميں قريب ايک لاکھ اضافی نرسوں کی ضرورت پڑے گی۔ جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر ميں قريب ساڑھے نو لاکھ افراد اس شعبے سے وابستہ ہيں۔

جرمن شہر اوفن باخ ميں قائم نرگس يلاغی کا ادارہ وہ واحد مقام نہيں، جہاں نرسنگ سے منسلک ملازمتوں يا تربيت کے ليے تارکين وطن اور بالخصوص خواتين کی بے حد مانگ ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک بھر ميں اسی طرز کے کئی ادارے اُبھر کر سامنے آئے ہيں۔ سرينا سيرا جرمن شہر ڈوسلڈورف کے قريبی شہر ميٹ مان ميں اسی نوعيت کے ايک منصوبے کے ساتھ منسلک ہيں۔ ان کے بقول اگرچہ عمر رسيدہ افراد کی نرسنگ کا کام مقابلتاﹰ مشکل ہے ليکن اگر کوئی اس کی تربيت حاصل کر لے، تو ملازمت کے مواقع بھی کافی زيادہ ہيں۔

اوفن باخ کی نرگس يلاغی کا کہنا ہے کہ وہ جن مخصوص خصوصيات کی حامل خواتين کی تلاش ميں رہتی ہيں، انہيں کافی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر تارکين وطن افراد کے ليے ايک بڑی رکاوٹ زبان ہے۔ يہی وجہ ہے کہ يلاغی کا ادارہ جرمن زبان کے کورس کی سہولت بھی مہيا کرتا ہے۔

اسی طرح تيس تا چاليس برس کی عمر کی خواتين کا ايک اور مسئلہ يہ ہوتا ہے کہ جس دوران وہ اپنی تربيت پر توجہ ديں، اس دوران ان کے بچوں کا خيال کون رکھے۔ سربيا سے تعلق رکھنے والی ايڈا ہليلوک اس مسئلے سے بخوبی واقف ہيں۔ دو بچوں کی والدہ ہليلوک کے ليے کافی عرصے تک يہ معمہ بنا رہا کہ صبح ساڑھے پانچ بجے، جب انہيں کام شروع کرنا پڑتا ہے، آخر وہ چائلڈ کيئر کہاں سے تلاش کريں۔ ليکن آج کل ان کے والدين بچوں کی ديکھ بھال کر رہے ہيں اور يوں وہ اپنی توجہ کام پر مرکوز کر سکتی ہيں۔ يہ جرمنی ميں ہليلوک کی پہلی ملازمت ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان عمر رسیدہ افراد کی خدمت کر کے مطمئن ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں