1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

شمشیر حیدر20 اپریل 2016

جرمنی میں اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران قریب تین ہزار پاکستانی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ جنوری سے مارچ تک کے اس عرصے میں قریب ساڑھے نو سو پاکستانیوں کی درخواستوں پر فیصلے بھی سنا دیے گئے۔

Griechenland Lebos Migranten aus Pakistan Rückführung Türkei
تصویر: DW/R. Shirmohammadi

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین و تارکین وطن (بی اے ایم ایف) کی جانب سے 2016ء کی پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے ہیں، جن کے مطابق گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں اس برس پہلے تین مہینوں کے دوران پاکستانی تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ دیے جانے کا تناسب 9.8 فیصد سے کم ہو کر قریب ساڑھے چھ فیصد رہ گیا ہے۔

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

’پاکستانی مہاجرین کو وطن واپس جانے پڑے گا‘

سال رواں کے پہلے تین ماہ کے دوران جرمنی میں مجموعی طور پر نئے آنے والے غیر ملکیوں میں سے ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد نے اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ان میں سے آدھے شامی باشندے تھے جب کہ دوسرے نصف میں سے 26 ہزار عراقی شہری تھے اور 20 ہزار افغان باشندے۔ باقی ماندہ 40 ہزار سے زائد درخواست دہندگان کا تعلق پاکستان، ایران اور اریٹریا سمیت کئی دوسرے ملکوں سے تھا۔

BAMF کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق پہلی سہ ماہی میں قریب تین ہزار پاکستانی شہریوں نے اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ساتھ ہی یکم جنوری سے لے کر اکتیس مارچ تک کے اس عرصے میں 942 پاکستانیوں کو جرمنی میں پناہ دینے یا نہ دینے کے بارے میں سرکاری فیصلے بھی کر لیے گئے۔

اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف 65 پاکستانی جرمنی میں سیاسی پناہ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ مجموعی طور پر 93 فیصد سے زائد پاکستانیوں شہریوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

02:33

This browser does not support the video element.

اگرچہ مجموعی طور پر جرمنی پہنچنے والے سیاسی پناہ لینے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے تاہم ایسے پاکستانی تارکین وطن کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بی اے ایم ایف اور یورپی دفتر شماریات یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں جرمنی میں 757 پاکستانیوں نے پناہ کی درخواستیں دی تھیں تاہم فروری میں یہ تعداد بڑھ کر قریب ایک ہزار جب کہ مارچ میں تو 1200 تک پہنچ گئی تھی۔

گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں اس سال اسی عرصے کے دوران جرمنی آنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد بڑھ کر تین گنا ہو گئی۔ پچھلے سال جنوری سے مارچ تک یہ تعداد محض ایک ہزار رہی تھی جو اس سال کے پہلے تین ماہ میں تقریباﹰ تین ہزار ہو گئی۔ 2015ء میں مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانیوں نے مختلف وجوہات بیان کرتے ہوئے جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

جرمنی میں پناہ کی غرض سے آنے والے افراد میں تناسب کے اعتبار سے پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ عراقی باشندوں کی تعداد میں دیکھا گیا۔ اس سال گزشتہ برس کے مقابلے میں پناہ کے متلاشی عراقیوں کی تعداد میں سات گنا سے بھی زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

شماریاتی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سال بھی جرمنی میں خانہ جنگی سے بچ کر نکلنے والے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا تناسب انتہائی زیادہ رہا، جو 99 فیصد بنتا تھا۔ اسی طرح افغان شہریوں کی طرف سے دی گئی 48 فیصد درخواستیں بھی منظور کر لی گئیں۔

جرمنی میں مروجہ وفاقی طریقہء کار کے تحت نئے آنے والے پناہ گزینوں کو مختلف وفاقی صوبوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق اکتیس مارچ کو ختم ہونے والے چوتھائی سال میں جنوبی جرمن صوبے باڈن وُرٹمبرگ میں 29 ہزار، سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ساڑھے 27 ہزار جب کہ ملک کے انتہائی جنوب میں اور رقبے کے لحاظ سے وسیع و عریض صوبے باویریا میں مزید 27 ہزار تارکین وطن کو بھیجا گیا۔ باقی ماندہ نئے پناہ گزینوں کو رہائش کے لیے ملک کے دیگر 13 صوبوں میں بھیج دیا گیا۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں