جرمنی میں اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران قریب تین ہزار پاکستانی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ جنوری سے مارچ تک کے اس عرصے میں قریب ساڑھے نو سو پاکستانیوں کی درخواستوں پر فیصلے بھی سنا دیے گئے۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین و تارکین وطن (بی اے ایم ایف) کی جانب سے 2016ء کی پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے ہیں، جن کے مطابق گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں اس برس پہلے تین مہینوں کے دوران پاکستانی تارکین وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ دیے جانے کا تناسب 9.8 فیصد سے کم ہو کر قریب ساڑھے چھ فیصد رہ گیا ہے۔
سال رواں کے پہلے تین ماہ کے دوران جرمنی میں مجموعی طور پر نئے آنے والے غیر ملکیوں میں سے ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد نے اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ان میں سے آدھے شامی باشندے تھے جب کہ دوسرے نصف میں سے 26 ہزار عراقی شہری تھے اور 20 ہزار افغان باشندے۔ باقی ماندہ 40 ہزار سے زائد درخواست دہندگان کا تعلق پاکستان، ایران اور اریٹریا سمیت کئی دوسرے ملکوں سے تھا۔
BAMF کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق پہلی سہ ماہی میں قریب تین ہزار پاکستانی شہریوں نے اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ساتھ ہی یکم جنوری سے لے کر اکتیس مارچ تک کے اس عرصے میں 942 پاکستانیوں کو جرمنی میں پناہ دینے یا نہ دینے کے بارے میں سرکاری فیصلے بھی کر لیے گئے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف 65 پاکستانی جرمنی میں سیاسی پناہ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ مجموعی طور پر 93 فیصد سے زائد پاکستانیوں شہریوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
اگرچہ مجموعی طور پر جرمنی پہنچنے والے سیاسی پناہ لینے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے تاہم ایسے پاکستانی تارکین وطن کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بی اے ایم ایف اور یورپی دفتر شماریات یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں جرمنی میں 757 پاکستانیوں نے پناہ کی درخواستیں دی تھیں تاہم فروری میں یہ تعداد بڑھ کر قریب ایک ہزار جب کہ مارچ میں تو 1200 تک پہنچ گئی تھی۔
گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں اس سال اسی عرصے کے دوران جرمنی آنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد بڑھ کر تین گنا ہو گئی۔ پچھلے سال جنوری سے مارچ تک یہ تعداد محض ایک ہزار رہی تھی جو اس سال کے پہلے تین ماہ میں تقریباﹰ تین ہزار ہو گئی۔ 2015ء میں مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانیوں نے مختلف وجوہات بیان کرتے ہوئے جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
جرمنی میں پناہ کی غرض سے آنے والے افراد میں تناسب کے اعتبار سے پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ عراقی باشندوں کی تعداد میں دیکھا گیا۔ اس سال گزشتہ برس کے مقابلے میں پناہ کے متلاشی عراقیوں کی تعداد میں سات گنا سے بھی زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
شماریاتی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سال بھی جرمنی میں خانہ جنگی سے بچ کر نکلنے والے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کا تناسب انتہائی زیادہ رہا، جو 99 فیصد بنتا تھا۔ اسی طرح افغان شہریوں کی طرف سے دی گئی 48 فیصد درخواستیں بھی منظور کر لی گئیں۔
جرمنی میں مروجہ وفاقی طریقہء کار کے تحت نئے آنے والے پناہ گزینوں کو مختلف وفاقی صوبوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق اکتیس مارچ کو ختم ہونے والے چوتھائی سال میں جنوبی جرمن صوبے باڈن وُرٹمبرگ میں 29 ہزار، سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں ساڑھے 27 ہزار جب کہ ملک کے انتہائی جنوب میں اور رقبے کے لحاظ سے وسیع و عریض صوبے باویریا میں مزید 27 ہزار تارکین وطن کو بھیجا گیا۔ باقی ماندہ نئے پناہ گزینوں کو رہائش کے لیے ملک کے دیگر 13 صوبوں میں بھیج دیا گیا۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔