جرمنی نے امریکا سے بہترین ملک ہونے کا اعزاز چھین لیا
اس برس دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک یہ رہے
اس سال جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ سن 2016 کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں امریکا پہلے نمبر پر جب کہ جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
1۔ جرمنی
جرمنی نے اس برس امریکا سے پسندیدہ ترین ملک ہونے کی پوزیشن چھین لی ہے۔ جن چھ کیٹیگریز کو پیش نظر رکھ کر یہ انڈکس تیار کیا گیا، ان میں سے پانچ میں جرمنی کی کارکردگی نمایاں تھی۔ سیاحت کے شعبے میں جرمنی اب بھی دسویں نمبر پر ہے۔ مصر، روس، چین اور اٹلی کے عوام میں جرمنی کے پسند کیے جانے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
2۔ فرانس
پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر جرمنی کا ہمسایہ ملک فرانس رہا۔ نئے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے انتخاب نے فرانس کو دوسری پوزیشن پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافت کے حوالے سے فرانس دنیا بھر میں پہلے جب کہ سیاحت میں دوسرے نمبر پر ہے۔
3۔ برطانیہ
بریگزٹ کے عوامی فیصلے کے بعد برطانیہ پسندیدہ ترین ممالک کی اس عالمی درجہ بندی میں پچھے چلا گیا تھا تاہم اس برس کے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں بریگزٹ کی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ برآمدات، سیاحت، ثقافت اور مہاجرت کے بارے میں پالیسیوں کے حوالے سے برطانیہ پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے اور مجموعی طور پر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر۔
4۔ کینیڈا (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
حکومت، عوام، مہاجرت سے متعلق پالیسیوں اور سرمایہ کاری میں بہتر کارکردگی کے باعث اس برس کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں کینیڈا چوتھی پوزیشن پر رہا۔ مجموعی طور پر کینیڈا کا اسکور گزشتہ برس سے زیادہ مختلف نہیں تھا تاہم امریکا کی رینکنگ کم ہونے کا بھی کینیڈا کو فائدہ پہنچا۔
4۔ جاپان (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
سن 2017 کے پسندیدہ ترین ممالک کے اس انڈکس میں جاپان کی کارکردگی گزشتہ برسوں کی نسبت بہت بہتر رہی اور وہ مشترکہ طور پر کینیڈا کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جاپان کی برآمدات کے شعبے میں کارکردگی اس برس بھی اچھی رہی لیکن اس کے علاوہ جاپان کی حکومت، ثقافت اور مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو بھی عالمی طور پر سراہا گیا۔
6۔ امریکا
جہاں جاپان اس فہرست میں تیزی سے اوپر آیا، وہیں امریکا کی کارکردگی مایوس کن رہی اور وہ اپنی مسلسل پہلی پوزیشن سے نیچے آتے ہوئے اس برس عالمی سطح پر دنیا کا چھٹا پسندیدہ ترین ملک قرار پایا۔ اس مایوس کن کارکردگی کا ذمہ دار ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کے شعبے میں امریکا دنیا میں تئیسویں نمبر پر آ چکا ہے۔ برآمدات کے حوالے سے تاہم امریکا کی دوسری پوزیشن برقرار رہی۔
پہلے دس ممالک
ان چھ ممالک کے علاوہ اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور سویڈن پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں بالترتیب ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر رہے۔
’نیشنز برانڈز انڈکس 2017‘ میں دنیا کے پچاس ممالک کی مقبولیت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ این بی آئی کے اس برس کے انڈکس کے مطابق دنیا کا پسندیدہ ترین ملک ہونے کا اعزاز جرمنی کو حاصل ہو گیا ہے، جب کہ گزشتہ برس اس فہرست میں امریکا پہلے اور جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکا اس فہرست میں پانچ درجے تنزلی کے بعد چھٹے نمبر پر موجود ہے جب کہ دوسری سے پانچویں پوزیشن پر بالترتیب فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان ہیں۔
اس انڈکس میں ملکوں کی مقبولیت کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ وہاں کے افراد، حکومت، برآمدات، سیاحت، مہاجرت سے متعلق پالیسیوں اور سرمایہ کاری جیسے چھ اہم نکات کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ ’ساسیج کا ملک‘، چانسلر میرکل، میڈ ان جرمنی ان حوالوں سے سرفہرست رہا لیکن سیاحت کے معاملے میں جرمنی کا نمبر دسواں رہا۔
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے اس فہرست میں جرمنی کے پہلے نمبر پر آنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’جرمنی کا تاثر اب محض ہماری مضبوط معیشت کی بنیاد پر نہیں رہا۔ دنیا جانتی ہے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ قابل ہیں۔‘‘
غیر ملکیوں کی نظر میں امریکا کے پہلی پوزیشن سے کافی نیچے چلے جانے کی بظاہر وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ہے۔ اس برس کے جائزے میں ’حکومت‘ کے زمرے میں امریکا تئیسویں نمبر پر ہے۔
سائنس اور تحقیق کے میدان میں جرمنی کا مقام، نئی رپورٹ جاری
جرمن برآمدات کے سُپر سٹار شعبے
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
اور نمبر ایک ہے ...
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔