1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی نے انسانی کھوپڑیاں نمیبیا کے حوالے کر دیں

1 اکتوبر 2011

جرمن دارالحکومت کے یونیورسٹی ہسپتال نے20 افریقی باشندوں کی کھوپڑیاں نمیبیا کے حوالے کر دی ہیں۔ 1909ء سے 1914ء کے دوران چار خواتین اور 16مردوں کی کھوپڑیوں کو تجربات کے لیے برلن لایا گیا تھا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن وزارت خارجہ کی وزیرمملکت کورنیلیا پیپر نے اس موقع پر کہا کہ یہ جرمنی اور نمیبیا کے باہمی تعلقات کی علامتی اقدار کو واضح کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا موقع ہے، جو ماضی میں کیے جانے والے مظالم کی یاد دلاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ عمل اس کا شکار ہونے والے افراد کو ناقابل برداشت تکلیف پہنچانے کے ذمہ دار ہونے کا اقرار بھی ہے۔ ان بیس افراد کا تعلق نمیبیا کے ہیریرو اور ناما قبائل سے ہے۔

نمیبیا بیسویں صدی میں جرمنی کی نوآبادی تھی۔ ابتداء میں  تن سے جدا سروں کو چہرے اور بالوں کے ساتھ  محفوظ کر لیا گیا تھا۔ 1920ء میں ان پر مزید تجربات کیے گئے، جس کے بعد صرف کھوپڑیاں ہی باقی بچی تھیں۔ 

محقیقن کا کہنا ہے کہ ان باقیات پر نہ تو کسی قسم کے تشدد کا نشان ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ ان افراد کی ہلاکت کس طرح ہوئی۔ حالانکہ ان افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں یہ افراد جرمن فوجوں کا نشانہ بنے تھے یا نمیبیا میں قائم کیے جانے والے کسی جرمن کیمپ میں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔

کھوپڑیاں واپس لینے کے لیے نمیبیا کا تہتر رکنی وفد جرمنی آیاتصویر: dapd

 1884ء سے 1919ء تک جرمنی ایک نوآبادیاتی طاقت تھا۔ اس دوران ہیریرو اور ناما قبائل کی جانب سے آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو پر تشدد انداز سے کچلا گیا۔ اس دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔

برلن کے مشہور زمانہ شاریٹے ہسپتال کے چیئرمین کارل ماکس نے اس موقع پرکہا کہ اس وقت نمیبیا کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر انہیں بہت افسوس ہے۔ ان کے بقول انسانی باقیات لوٹائے جانے پر شاریٹے ان افراد کو خراج عقیدت پیش کررہا ہے۔ 

نمیبیا کی حکومت نے 2008ء میں جرمن حکام سے رابطہ کر کے یہ باقیات واپس مانگی تھیں۔ تاہم ان افراد کی شناخت کے عمل میں وقت لگا۔ ان باقیات کو لینے کے لیے نمیبیا سے 73 رکنی ایک وفد آیا تھا۔ اس میں سرکاری اہلکاروں کے علاوہ قبائلی عمائدین بھی شامل تھے۔

 

رپورٹ:  عدنان اسحاق

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں