جرمن ریاستوں کے وزرائے داخلہ نے طے کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر جرمنی میں موجود ایرانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ غیر معینہ مدت تک روک دیا جائے۔ یہ فیصلہ ایران میں مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمن ریاست باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان کے مطابق صرف خطرناک افراد اور بڑے مجرمان کی ملک بدری پر ہی غور کیا جائے گا۔ ہیرمان جرمن ریاستوں کے وزرائے داخلہ کے اجلاس کی سربراہی کر رہے تھے۔ یہ اجلاس جرمن ریاستوں کے اعلیٰ ترین وفاقی اور علاقائی حکومتی ارکان کے سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل منعقد کیا گیا۔
ایران میں ایک 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کی ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے گزشتہ کئی ماہ سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مہسا کو مناسب طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
حالیہ احتجاج کے دوران کم از کم 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ایرانی جنرل
ایرانی جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا ہے کہ ملک میں حالیہ احتجاج کے دوران کم از کم 300 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حاجی زادہ ایرانی انقلابی گارڈز کے خلائی تحقیق سے متعلق ادارے کے سربراہ ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارم تابناک پر شائع ہونے والی ویڈیو میں ایرانی جنرل نے شہدا کا بھی ذکر کیا جن سے مراد سکیورٹی فورسز اور پولیس کےہلاک ہونے والے ارکان ہیں۔
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایرانی اہلکار نے حالیہ مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے قبل انسانی حقوق کے کارکن ہی اس بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے۔ اُن کا تاہم کہنا ہے کہ کم از کم ہلاکتوں کی تعداد 450 سے زائد ہے۔
تہران میں جرمن سفیر تیسری مرتبہ دفتر خارجہ طلب
ادھر پیر 28 نومبر کو ایرانی حکام نے تہران میں تعینات جرمن سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر لیا۔ یہ طلبی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اس فیصلے پر احتجاج کے لیے ہوئی جس کے مطابق مظاہروں کے جواب میں ایران کے ردعمل کی تحقیقات کرانے کا کہا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل کی طرف سے اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کرانے کا یہ فیصلہ جرمنی اور آئس لینڈ کی درخواست پر جمعرات 24 نومبر کو دیا گیا۔ ایران میں ستمبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران جرمن سفیر ہانس اوڈو موزیل کی یہ تیسری بار طلبی تھی۔ جرمن حکومت ایران کی طرف سے احتجاجی مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کر چکی ہے۔