جرمنی نے ترک یورپی ڈیل کے تحت سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی
شمشیر حیدر AFP/KNA/dpa
23 اپریل 2017
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے شدہ معاہدے کے مطابق جرمنی نے یونین کے باقی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ یہ معاہدہ گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں طے پایا تھا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے شدہ معاہدے کے تحت اب تک جرمنی نے سب سے زیادہ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ یورپی یونین اور ترکی کے مابین یہ ڈیل گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں طے پائی تھی لیکن اس پر عمل درآمد اپریل کے مہینے سے شروع ہوا تھا۔
معاہدہ طے پانے کے ایک سال بعد کے عرصے میں ترکی میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں مقیم 4884 مہاجرین کو قانونی طریقے سے مختلف یورپی یونین کے ممالک لا کر آباد کیا گیا۔ جرمنی نے ان میں سے 1768 مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی جو کہ مجموعی تعداد کا قریب چھتیس فیصد بنتی ہے۔
یہ اعداد و شمار جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ترکی کے پناہ گزین کیمپوں سے جرمنی آنے والے مہاجرین کی تازہ ترین کھیپ اسی ہفتے جمعرات کے روز آئی۔ اس ایک فلائٹ میں 180 مہاجرین قانونی طریقے سے جرمنی پہنچے۔ نو مئی کے روز ایک ایسی ہی پرواز مزید مہاجرین کو ترکی سے جرمنی پہنچائے گی۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق مستقبل میں ہر ماہ پانچ سو مہاجرین کو ترکی سے جرمنی لا کر آباد کیا جائے گا۔ جرمنی کے بعد ہالینڈ نے سب سے زیادہ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دی۔ ہالینڈ میں 1029 جب کہ فرانس میں 691 مہاجرین کو قانونی طریقے سے لا کر آباد کیا گیا۔
مہاجرین سے متعلق جرمنی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترک ساحلوں سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیرے کا رخ کرنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ اب تک قریب بارہ سو ایسے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا چکا ہے جن میں سے اکثریت پاکستانی شہریوں کی تھی۔
اس معاہدے کے مطابق واپس ترکی بھیجے جانے والے ہر بین الاقوامی قوانین کے مطابق تسلیم شدہ مہاجر کے بدلے ترک کیمپوں میں رہنے والے ایک مہاجر کو یورپی یونین میں قانونی طریقے سے پناہ دی جائے گی۔ علاوہ ازیں یورپی یونین ترکی میں مہاجرین کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے انقرہ حکومت کو مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘