جرمنی نے داعش کی رکن خاتون کی واپسی کی منظوری دے دی
23 نومبر 2019
جرمنی نے شام ميں قيد داعش کی ايک مشتبہ خاتون رکن کی اس کے بچوں کے ہمراہ جرمنی واپسی کی منظوری دے دی ہے۔ يہ پہلا موقع ہے کہ جرمن حکومت کی منظوری سے کسی جرمن نژاد مشتبہ شدت پسند کو وطن واپس لايا جا رہا ہے۔
اشتہار
جرمن حکام نے شام ميں ايک حراستی مرکز ميں قيد ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے ايک مشتبہ جہادی خاتون کی ان کے تين بچوں کے ہمراہ جرمنی حوالگی کی حامی بھر لی ہے۔ يہ پہلا موقع ہے کہ برلن حکومت نے جرمن شہريت رکھنے والی کسی مشتبہ شدت پسند اور اس کے بچوں کی وطن واپسی کی باقاعدہ منظوری دی ہے۔ جرمن اخبار ’اشپيگل‘ ميں اس بارے ميں شائع کردہ رپورٹ ميں اس تيس سالہ مشتبہ خاتون کا نام لورا ايچ لکھا گیا ہے اور ان کا تعلق جرمنی کے وسطی حصے سے بتايا گیا ہے۔ مشتبہ خاتون سن 2016 ميں جرمنی چھوڑ کر اس جہادی تنظيم کا حصہ بنی تھيں۔ اِس وقت وہ اور ان کے تين بچے، شمالی شام ميں الحول کے مقام پر کردوں کے زير انتظام ايک حراستی مرکز ميں موجود ہيں۔ يہ چاروں آئندہ چند ايام ميں اربيل کے راستے جرمنی پہنچيں گے۔
شام اور عراق سے دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی پسپائی کے بعد سينکڑوں جنگجو کردوں کے زير انتظام حراستی مراکز ميں قيد ہيں۔ ان ميں ايک بڑی تعداد غير ملکی جنگجوؤں کی ہے، جن ميں کئی يورپی شہری بھی ہيں۔ يورپی يونين کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کی ان کے آبائی ممالک واپسی کافی دباؤ کا شکار ہے۔ سينئر اہلکار سلامتی سے متعلق خطرات کے سبب اس عمل ميں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے آئے ہيں۔
جمعے کو جرمن حکام نے باقاعدہ طور پر تصديق کی کہ مشتبہ جرمن خاتون اپنے تينوں بچوں کے ہمراہ عنقريب عراق کے ليے روانہ ہو سکيں گی۔ حکومت نے مشتبہ خاتون اور بچوں کی شناخت کے حوالے سے کوئی تفصيل جاری نہيں کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ پر جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق خاتون پر شبہ ہے کہ انہوں نے دہشت گرد تنظيم کی رکنيت حاصل کی اور بچوں کے حوالے سے لا پروائی کا مظاہرہ کيا۔ اس بارے ميں تفتيش جاری ہے۔
’اسلامک اسٹيٹ‘ کی صفوں ميں شامل ہو کر لڑنے والی خواتين کے خلاف جرمنی ميں اس سے پہلے بھی عدالتی کارروائی ہو چکی ہے۔ تاہم اب تک عدالت ميں صرف ان عورتوں کو پيش کيا گيا، جو يا تو خود جرمنی واپس آئيں يا پھر انہيں کسی اور ملک سے ملک بدر کر کے جبری طور پر جرمنی بھيجا گيا۔ لورا ايچ کا معاملہ ايسا پہلا کيس ہے، جس ميں کسی مشتبہ جنگجو اور اس کے بچوں کی وطن واپسی جرمن حکام کے کہنے پر ہو گی۔
جرمن خبر رساں ايجنسی ڈی پی اے اور ’بلڈ‘ اخبار نے اپنی رپورٹوں ميں يہ بھی لکھا ہے کہ اپنے تين بچوں کے علاوہ لورا ايچ ايک اور امريکی شہريت کی حامل دو سالہ بچی کی ديکھ بھال بھی کر رہی ہيں۔ يہ بچی امکاناً لورا ايچ کے پہلے خاوند کی بيٹی ہے، جو ايک امريکی شہری ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ بچی لورا ايچ تک کيسے پہنچی۔
حکام کے اندازوں کے مطابق جرمن شہريت کے حامل تقريباً اسی مشتبہ جنگجو شام ميں قيد ہيں۔ برلن حکومت نے حال ہی ميں يہ اعلان کيا تھا کہ شدت پسندوں يا ان کی بيواؤں کی جرمنی واپسی کے ہر کيس کا انفرادی طور پر جائزہ ليا جائے گا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔