منگل کے روز جرمنی سے 43 کے قریب عراقی شہریوں کو ملک بدر کر دیا، یہ تمام افراد ایک چارٹر پرواز کے ذریعے بغداد بھیجے گئے۔ چند روز قبل اسی طرح کی ایک پرواز افغان شہریوں کو وطن واپس لے گئی تھی۔
پہلا مسافر صبح 7 بجے سے ٹھیک پہلے سوار ہوا، اور کم از کم ایک فرد کو الیکٹرانک ٹخنہ مانیٹر پہنے دیکھا گیاتصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
اشتہار
مشرقی جرمن ریاست تھورنگیا کی وزارتِ انصاف کے مطابق، ملک بدر کیے گئے تمام افراد ''تنہا مرد‘‘ تھے جنہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وزارت نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ افراد ماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اس ملک بدری کے عمل میں سات وفاقی ریاستیں اور وفاقی پولیس شامل تھیں۔
ڈی پی اے نیوز ایجنسی کے فوٹوگرافر کے مطابق، مسافروں کو پولیس کی گاڑیوں اور ہوائی اڈے کی بسوں کے ذریعے جہاز تک لے جایا گیا، اور ہر ایک کو انفرادی طور پر پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں طیارے میں سوار کرایا گیا۔
تھورنگیا کی وزیرِ انصاف بیاتے مائسنر، جو حکمران کرسچن ریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا، ''ہمارا پیغام واضح ہے: جو کوئی بھی رہائشی حق نہیں رکھتا، اسے ہمارے ملک سے جانا ہو گا۔‘‘
اس سے قبل جمعہ کو، جرمنی نے 81 افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجا، یہ چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے تحت ایسی پہلی ملک بدری تھی۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گیتصویر: DW
افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا دوبارہ آغاز
جرمن وزارت داخلہ نے جمعے کے روز تصدیق کی تھی کہ 81 افغان باشندوں کو لیپزگ ایئرپورٹ سے ایک پرواز کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا۔
اشتہار
برلن حکومت نے کہا کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت کے بعد مزید افغان شہریوں کی ملک بدری کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ جرمنی نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا البتہ اس کے دو سفارت کاروں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
برلن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/S. Hoppe
10 تصاویر1 | 10
جرمنی کی ملک بدریوں سے متعلق پالیسی
تقریباً 10 ماہ قبل، جرمنی نے 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار افغان شہریوں کی ملک بدری دوبارہ شروع کی تھی۔ اس وقت کے چانسلر اولاف شولس نے مسترد شدہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے عمل کو تیز کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ان کے جانشین فریڈرش میرس نے فروری 2025 کے انتخابی مہم میں سخت امیگریشن پالیسی کو بنیادی نکتہ بنایا۔
جرمنی کو اس فیصلے پر تنقید کا سامنا بھی ہے، کیونکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رپورٹ ہو رہی ہیں، اور طالبان سے مذاکرات کو بھی متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا کہ لوگوں کو افغانستان واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ''ہم افغانستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘
کابل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ''زمین پر حالات ابھی واپسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘‘
جرمنی کی بدلتی ہوئی امیگریشن پالیسی، کئی خاندان بے یقینی کا شکار
03:34
This browser does not support the video element.
ملک بدری کے متعلق برلن کی دلیل
وفاقی جرمن حکومت کی دلیل ہے کہ وہ ''اس اقدام کے ذریعے مخلوط حکومت کے معاہدے میں طے شدہ ایک اہم وعدے پر عمل کر رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے ملک بدریوں کا آغاز ان افراد سے کیا جائے گا جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں یا سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘
ادھر جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا، ''حکومت نے جرائم کے مرتکب افراد کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور یہ کام صرف ایک پرواز سے پورا نہیں ہو گا۔‘‘