جرمن وزارت خارجہ نے یہ اقدام ایک ایرانی نژاد جرمن شہری کو تہران میں موت کی سزا سنائے جانے کے رد عمل میں کیا۔ جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نےجمشید شارمھد کو سنائی گئی سزا کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اشتہار
جرمنی نے بدھ کے روز دو ایرانی سفارت کاروں کو ’ناپسندیدہ شخصیات‘ قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ یہ اقدام تہران کی ایک عدالت کے ایرانی نژاد جرمن شہری جمشید شارمھد کو موت کی سزا سنانے کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ایرانی سفارت کاروں کی بے دخلی کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی اس ’’بڑے پیمانے پر ایک جرمن شہری کے انسانی حقوق کی پامالی کو قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم ایران سے جمشید شارمھد کی سزائے موت کی منسوخی اور انہیں منصفانہ اور آئین کے مطابق اپیل کے عمل کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
انالینا بیئربوک نے برلن میں واقع ایرانی سفارت خانے کے ناظم الامور کو وضاحت کے لیے طلب بھی کر لیا۔
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
جمشید شارمھد کون ہیں؟
منگل کے روز تہران کی ایک انقلابی عدالت نے 67 سالہ جمشید شارمھد کو موت کی سزا سنائی تھی۔ ایران میں عموماﹰ سزائے موت کے مجرمان کو پھانسی دی جاتی ہے۔
ایرانی عدلیہ کے نیوز پورٹل ’میزان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں جمشید شارمھد کو ایک دہشت گردانہ حملے کا ذمے دار اور بیرونی انٹیلیجنس اداروں سے تعاون کے لیے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
شارمھد کے خاندان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ جمشید شارمھد کو سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف ایرانی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔
شارمھد کو ایرانی انٹیلیجنس نے 2020ء میں دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد ایران پہنچا دیا تھا۔ وہ تب سے تہران کی ایک جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل جمشید شارمھد امریکہ میں مقیم تھے۔ وہاں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے مخالفین کے گروپ ’تھنڈر‘ سے منسلک رہے تھے۔ یہ گروہ ان جلاوطن ایرانیوں پر مشتمل ہے، جو ایران میں اسلامی جمہوریہ کے خاتمے اور وہاں بادشاہت کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔
ایرانی عدلیہ کے مطابق اس تنظیم نے 2008ء میں شیراز شہر کی ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے سلسلے میں تین افراد کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔