جرمنی نے مہاجرت سے متعلق یو این او کے معاہدے کی حمایت کر دی
2 نومبر 2018
جرمنی نے اقوام متحدہ کے مہاجرت پر مجوزہ بین الاقوامی معاہدے کی حمایت کی ہے۔ یاد رہے کہ ہنگری، امریکا اور آسٹریلیا کے بعد آسٹریا نے بھی اس میثاق سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مہاجرت پر مجوزہ عالمی معاہدہ کسی بھی ملک کی حاکمیت کو کمزور نہیں کرے گا اور یہ ایک غیر سیاسی اعلان کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ کسی ٹھوس معاہدے کی۔
ابھی دو روز قبل ہی جرمن کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت اے ایف ڈی نے جرمن حکومت سے آسٹریا کے نقش قدم پر چلنے اور اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مجوزہ معاہدے کا مقصد عالمی سطح پر مہاجرت کو منظم کرنا اور تارکین وطن اور مہاجرین کے حقوق کو مضبوط بنانا ہے۔ اس معاہدے میں شامل شقوں میں مہاجرین کے خاندانوں کے ساتھ اُن کی ری یونین، صحت اور تعلیم کی سہولتوں تک رسائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کے حقوق کو تسلیم کرنا شامل ہیں۔
جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا،’’ یہ مجوزہ معاہدہ اہداف کی تشکیل کرتا ہے۔ خاص طور سے جب یہ غیر قانونی مہاجرت کو روکنے اور ترک وطن کی قانونی صورتوں کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ معاہدے کے تحت یہ متعلقہ ملک کے ہاتھ میں ہو گا کہ مہاجرین وہاں کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ریاست کتنی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنا چاہتی ہے۔
گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ نے ہنگری اور آسٹریا کے مہاجرت پر ایک بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے کو نادرست قرار دیا تھا۔ منظم، محفوظ اور باضابطہ مہاجرت کے اس بین الاقوامی معاہدے کی منظوری رواں سال جولائی میں ایک سو ترانوے رکن ممالک نے دی تھی۔ امریکا نے گزشتہ برس ہی اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد جولائی میں ہنگری نے بھی معاہدے پر دستخط نہ کرنے کا اعلان کر دیا تھا جبکہ بدھ کے روز آسٹریا کے چانسلر سبستیان کرس نے بھی کہہ دیا ہے کہ اُن کا ملک بھی اس میں شمولیت اختیار نہیں کرے گا۔ رپورٹوں کے مطابق پولینڈ بھی مہاجرت کے اس عالمی معاہدے سے نکلنے کے بارے میں غور کر رہا ہے۔
دوسری جانب آسٹریائی حکومت کا موقف ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد اُن کی ملکی حاکمیت اور سکیورٹی کو جہاں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہیں ملک کی آزادی کو بعض رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا مہاجرین سے متعلق معاہدہ عالمی سطح پر پائے جانے والے اس حساس معاملے کو حل کرنے کے لیے طے کیا گیا تھا۔
ص ح / ع ح ق / نیوز ایجنسی
ہنگری میں جرمنی جانے کے منتظر مہاجرین
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہوئے مہاجرین دو روز تک بے خبر رہے کہ آگے اُن پر کیا بیتے گی۔ ٹکٹ اُن کے پاس تھے لیکن سفر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب اجازت ملی تو انہیں ایک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
کھلے آسمان کے نیچے
بہت سے مہاجرین نے ایسٹرن ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جگہ پر ہی رات کو ڈیرے لگا لیے۔ ان لمحات میں اُنہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے کیا ہو گا، کہیں جانے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں اور ملے گی بھی تو کب۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
’عارضی قیام کی جگہ‘
پولیس نے اس جگہ کو ’ٹرانزٹ زون‘ قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ ان حالات کو کسی صورت ٹرانزٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین کو حکام کی طرف سے کافی دیر تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
آگے سفر کا انتظار
کئی ایک مہاجرین کو آگے مغربی یورپ کی جانب سفر کا انتظار کرتے کرتے دو روز ہو گئے ہیں۔ اُن کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج
قبل از دوپہر ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی جگہ پر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مہاجرین نے بلند آواز میں ہنگری کی پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریلوے اسٹیشن پر تالے پڑے رہے
صورتِ حال پر قابو پانے اور مہاجرین کو ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی رکھنے کے لیے مزید پولیس بھیجی جاتی رہی اور پولیس کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
امید کی کرن
پھر اچانک مہاجرین کو ریلوے پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مہاجرین کو بتایا گیا کہ ایک ریل گاڑی اُنہیں آگے مغربی یورپ تک لے کر جائے گی۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل پر چڑھنے کے لیے دھکم پیل
سینکڑوں مہاجرین نے ریلوے اسٹیشن کے مرکزی ہال پر ایک طرح سے دھاوا بول دیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغرب کو جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو جائے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
اور بالآخر سفر شروع ہوا
ریل پر جگہ پانے والے تمام مہاجرین کا خیال یہ تھا کہ اب بالآخر اُنہیں ہنگری سے نکلنے اور اپنی پسند کے کسی یورپی ملک میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش تھی کہ وہ جرمنی جائیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
جو پیچھے رہ گئے
ریل گاڑی پر سبھی مہاجرین سوار نہ ہو سکے۔ جو بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہی پڑے رہ گئے، اُن کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ان لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر وہ واقعی ریل پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے تو کہاں پہنچ چکے ہوتے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل گاڑی کہیں اور جا پہنچی
جمعرات کو قبل از دوپہر دراصل ہوا یہ تھا کہ بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی کو شہر سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد روک دیا گیا اور مہاجرین کو اترنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں ہنگری کے ایک مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہاں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جا سکے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
گہری بداعتمادی
بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے رہ جانے والے مہاجرین میں افغانستان کا شریفی بھی ہے، جس کے ساتھ اُس کی ایک سالہ بیٹی مہیبہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اُسے ہنگری کے حکام پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔