جرمنی نے ٹوئٹر کی ٹرمپ پر پابندی کو ’مسئلہ‘ قرار دے دیا
12 جنوری 2021
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مستقل طور پر معطل کیے جانے سے اظہار آزادی کے حق پر سوال اٹھتے ہیں۔
اشتہار
ایک بیان میں جرمن چانسلر کے ترجمان اسٹیفن زائیبرٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ سیاسی بیانات سے جھوٹ، نفرت اور تشدد پر اکسانے کو فروغ حاصل نہ ہو۔
انہوں نے کہا سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے رجحانات کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتی اور ان کی طرف سے اس قسم کے مواد کی نشاندہی کرنا درست ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کے حق کی بھی بنیادی اہمیت ہے۔
برلن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جرمن چانسلر کے ترجمان نے کہا کہ اس بنیادی حق پر بعض اوقات قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں لیکن قانون کے دائرے میں اور منتخب نمائندوں کی طرف سے تعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے منتظمین کو پابندیاں لگانے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے جرمن چانسلر کو صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہمیشہ کے لیے بلاک کیے جانے پر تشویش ہے۔ ناقدین کے مطابق کسی سوشل میڈیا کمپنی کے سربراہ کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جب چاہے کسی سربراہ مملکت کو اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچانے سے روک سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جرمنی کے بارے میں بیانات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کی تعریف بھی کر چکے ہیں اور جرمنی پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے چانسلر میرکل کو ’عظیم‘ بھی کہا ہے اور ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ برلن حکومت امریکا کی ’مقروض‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
کبھی ایسا تو کبھی ویسا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ وہ جرمنی کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور کبھی ان حق میں بیان بھی دیتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. May
’عظیم‘
ٹرمپ نے 2015ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جرمنی خاموشی سے رقم جمع کرنے اور دنیا کی ایک عظیم رہنما میرکل کے سائے میں قسمت بنانے میں لگا ہوا ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/M. Schreiber
بہت برا
’’جرمن برے ہوتے ہیں، بہت ہی برے۔ دیکھو یہ امریکا میں لاکھوں گاڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ افسوس ناک۔ ہم اس سلسلے کو ختم کریں گے۔‘‘ جرمن جریدے ڈیئر شپیگل کے مطابق ٹرمپ نے یہ بیان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس کے دوران دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Vucci
کچھ مشترک بھی
ٹرمپ نے مارچ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ’’ ٹیلفون سننے کی بات ہے، تو میرے خیال میں جہاں تک اوباما انتظامیہ کا تعلق تو یہ چیز ہم میں مشترک ہے۔‘‘ ان کی اشارہ ان الزامات کی جانب تھا، جو وہ ٹیلیفون سننے کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ 2013ء میں قومی سلامتی کے امریکی ادارے کی جانب سے میرکل کے ٹیلیفون گفتگو سننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد جرمنی بھر میں شدید و غصہ پایا گیا تھا۔
تصویر: Picture alliance/R. Sachs/CNP
غیر قانونی
’’میرے خیال میں انہوں نے ان تمام غیر قانونی افراد کو پناہ دے کر ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان تمام افراد کو، جن کا تعلق جہاں کہیں سے بھی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے یہ بات ایک جرمن اور ایک برطانوی اخبار کو مشترکہ طور پر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
’مقروض‘ جرمنی
ٹرمپ نے 2017ء میں میرکل سے پہلی مرتبہ ملنے کے بعد کہا تھا، ’’جعلی خبروں سے متعلق آپ نے جو سنا ہے اس سے قطع نظر میری چانسلر انگیلا میرکل سے بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ جرمنی کو بڑی رقوم نیٹو کو ادا کرنی ہیں اور طاقت ور اور مہنگا دفاع مہیا کرنے پر برلن حکومت کی جانب سے امریکا کو مزید پیسے ادا کرنے چاہیں۔‘‘
تصویر: Picture alliance/dpa/L. Mirgeler
منہ موڑنا
امریکی صدر نے جرمن حکومت کے داخلی تناؤ کے دوران اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’جرمن عوام تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں، جس نے مخلوط حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہوا ہے، اپنی قیادت کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں افراد کو داخل کر کے یورپی سطح پر بہت بڑی غلطی کی گئی ہے، جس سے یورپی ثقافت پر بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images/L. Marin
7 تصاویر1 | 7
صدر ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور میں ٹوئٹر کا بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر سیاسی مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دیگر ملکوں اور عالمی رہنماؤں کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے کئی اہلکاروں کو ٹوئٹر پر بےعزت کرتے ہوئے برخاست کرنے کی روش بھی ڈالی۔
حالیہ چند ماہ میں ٹوئٹر نے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق غلط بیانی پر ان کی ٹوئٹس کی نشاندہی بھی کی اور کچھ پر قدغنیں بھی لگائیں۔
تاہم پچھلے ہفتے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی اور ہنگامہ آرائی کے بعد ٹوئٹر نے ان کا اکاؤنٹ مستقل طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا۔
ان ہنگاموں میں پانچ لوگ مارے گئے۔ ٹوئٹر کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیانات سے مزید خون خرابے کا خطرہ تھا۔
اس کے بعد جمعرات کو فیس بک نے بھی صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کردیا۔ ابتدائی طور پر یہ پابندی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی بیس جنوری کو تقریب حلف برداری تک ہوگی لیکن قوی امکان ہے کہ فیس بک اس بندش کو غیر معینہ مدت کے لیے بڑھا دے۔
جرمنی میں کئی سیاسی رہنما اور حکومتی وزرا ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تاہم چانسلر انگیلا میرکل کا اپنا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں۔
ش ج / ص ز (اے پی، ڈی پی اے)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔