جرمن حکومت نے 'ہائی سیز ٹریٹی‘ نامی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد گہرے سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ہے۔ اس بارے میں عالمی سطح پر سیاسی کوششیں پندرہ سال سے جاری تھیں۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اور وزیر ماحولیات اسٹیفی لیمکے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے پر ہائی سیز ٹریٹی پر دستخط کیے۔ اقوام متحدہ نے اسی برس جون میں اس معاہدے کو منظور کیا تھا تاکہ ان سمندری علاقوں کو ماحولیاتی تحفظ فراہم کیا جائے جو کسی بھی ملک کے زیر انتظام نہیں ہیں۔ اب عالمی سمندروں کے کم از کم 30 فیصد علاقے کو ایسے محفوظ خطے قرار دے دیا گیا ہے، جہاں حیاتیاتی تنوع کی مکمل حفاظت کی جا سکے گی۔
دونوں وزراء نے کیا کہا
انالینا بیئربوک نے کہا کہ یہ معاہدہ دنیا بھر کے سمندروں کے لیے امید کی کرن ہے، دنیا کے باسیوں کے لیے امید کی کرن ہے اور یہ اقوام متحدہ کے لیے بھی امید کی کرن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں گہرے سمندر ایک طرح سے لاقانونیت والے علاقے ہوا کرتے تھے لیکن اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔
وزیر ماحولیات اسٹیفی لیمکے بھی بیئربوک کی طرح گرین پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے بھی اس معاہدے کو عالمی سمندروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک تاریخی دن قرار دیا۔ وزیر ماحولیات نے کہا کہ یہ معاہدہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اس وجہ سے بھی کہ پہلی مرتبہ زمین پر سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضابطے وضع کیے گئے ہیں۔
لیمکے کے بقول، ''ماحولیاتی بحران، آلودگی کے بحران اور سمندری حیات کے معدوم ہوتے جانے کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارا انحصار صاف ستھرے اور صحت مند سمندروں پر ہے۔‘‘
ہائی سیز ٹریٹی کیا ہے؟
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مختلف ممالک کے مخصوص اقتصادی خطوں سے باہر کے علاقوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے اب گہرے پانیوں میں معدنی وسائل کی تلاش اور انہیں نکالنے سے قبل اس سرگرمی سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس معاہدے کا ایک اہم مقصد ایسے طریقہ ہائے کار کی تلاش بھی تھا، جن کی مدد سے یہ نگرانی بھی کی جا سکے کہ کسی بھی قسم کے اقتصادی منصوبے یا دیگر سرگرمیاں ایسی نہ ہوں، جو ان محفوظ سمندری علاقوں میں ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے متصادم ہوں۔
ان مخصوص اکنامک زونز سے باہر تقریباﹰ ساٹھ فیصد سے زیادہ سمندری علاقے ہیں۔ اس سے قبل تحفظ کے حوالے سے بنائے گئے اصول بہت کم ہی علاقوں پر لاگو ہوتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع نے بتایا کہ 67 ممالک نے ایک ہی دن میں اس معاہدے پر دستخط کیے، جن میں امریکہ، چین، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، میکسیکو اور پورییورپی یونین بھی شامل ہیں۔
فیجی کے ڈوبتے جزائر
سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح نے جنوبی بحرالکاہل کے سینکڑوں گاؤں کے رہائشیوں کو بلند علاقوں یا دوسرے جزیروں پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ مقامی افراد کے لیے یہ ایک تکلیف دہ قدم ہے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
سیلابی ریلا
فیجی کے جزیرے سیریا پر، پانی رکاوٹوں کو توڑ کر گاؤں میں داخل ہو گیا تھا۔ کچھ گھروں کے درمیان لکڑی کے تختوں کے ذریعے عارضی راستے بنائے گئے۔ کھارے پانی سے باغات اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مستقبل کو محفوظ بنانا
ایک مقامی خاتون سیروا نامی گاؤں میں تین بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ یہاں ان کی تین سالہ بیٹی ان کی گود میں ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب، کٹاؤ اور شدید موسمی حالات کے پیش نظر، سیروا گاؤں کی اگلی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے فیجی کے مرکزی جزیرے پر منتقل ہونا ہو گا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
امکانات کی کمی
سیروا گاؤں آٹھ سالہ رتوکالی مدناوا آج کل غوطہ خوری نہیں کر رہیں۔ گاؤں کے بزرگ اس بارے میں پریشان ہیں کہ کیا مصنوعی طریقے سمندر کو مزید دیہاتوں اور قبرستانوں کو نگلنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ تمام دستیاب آپشنز ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
کوئی راستہ نہیں
ایک بزرگ مقامی رہائشی اور ان کا پوتا فیجی کے ایک جزیرے پر ماہی گیری کے سفر کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس گاؤں کے بزرگوں کا ہمیشہ یہ خیال تھا کہ وہ یہاں اپنی پیاری زمین پر ہی ہلاک ہوں گے، جہاں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں۔ لیکن جب کمیونٹی کے پاس اپنے علاقے کو بچانے کے راستے ختم ہو جائیں گے، تو یہاں مقیم 80 دیہاتیوں کو اپنی زمین چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑے گا۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
غیر موثر روکاوٹیں
فیجی کی اقتصادی امور کی وزارت کے ساتھ منسلک موسمیاتی تبدیلی کے ماہر شیونال کمار نے کہا کہ بند بنانا، درخت لگانا اور نکاسی آب کو بہتر بنانا اب اس گاؤں کو بچانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
آلودگی کا سبب بنے والی ریاستیں ادائیگیاں ادا کرنے سے انکاری
اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق کانفرنسوں میں صنعتی ممالک کی طرف سے جو فنڈز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ آبادکاری کے لیے نہیں بلکہ بند کی تعمیر، درختوں کو اگانے وغیرہ جیسے اقدامات کے لیے دیے جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والی اقوام، جیسے کہ فیجی کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پیدا کرنے والے ممالک کو معاوضے کی ادائیگیوں میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مایوس دیہاتی
اگست کے اوائل میں COP26 کے صدر آلوک شرما نے دارالحکومت سووا میں کہا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر دیہاتیوں کی مایوسی کو سمجھتے ہیں، ’’آپ کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتائج سے نمٹنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ گیسیں بڑے پیمانے پر سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک کی طرف سے پیدا کی جاتیں ہیں، جو خود یہاں سے بہت دور ہیں۔ یہ آپ کا پیدا کردہ بحران نہیں ہے۔"
تصویر: LOREN ELLIOTT/REUTERS
مشکل فیصلہ
وینادوگولوا نامی اس گاؤں کے بچوں کو اب اپنے گھروں کے سامنے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا بلکہ اب وہ خشک پاؤں کے ساتھ اپنے نئے گھروں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا نیا گاؤں پرانے گاؤں سے 1.5 کلومیٹر دور ہے۔ 63 سالہ راماتو کا کہنا ہے کہ بزرگوں کو راضی کرنے میں کچھ وقت لگا، لیکن گاؤں والوں نے آخر کار ماہرین کی بات مان لی۔ نئے گاؤں کا نام کنانی ہے۔