جرمنی نے یوکرینی مہاجرین کے ساتھ بہتر سلوک کیا، جرمن وزیر
3 جولائی 2022
جرمن وزیر داخلہ کے مطابق جرمنی نے یوکرینی مہاجرین کے ساتھ 2015ء میں آنے والے مہاجرین کے مقابلے میں زیادہ بہتر سلوک کیا۔ جرمنی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے یورپی مہاجرین کے ساتھ زیادہ بہتر برتاؤ کیا۔
نینسی فیزرتصویر: JOHN MACDOUGALL/AFP/Getty Images
اشتہار
جرمنی نے یوکرین سے آنے والے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے میں 2015ء کے دوران جنگ زدہ شام سے آنے والے مہاجرین کے مقابلے میں زیادہ گرمجوشی دکھائی اور زیادہ بہتر اقدامات کیے۔ یہ بات جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
تاہم جرمنی کو اس بات پر تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس نے یورپی مہاجرین کے ساتھ ان لوگوں کی نسبت مختلف سلوک کیا جو مشرق وسطیٰ یا تنازعات کے شکار دیگر خطوں سے یہاں پہنچے۔
یوکرینی خواتین جرمنی میں نئی زندگی کی امید لیے
03:07
This browser does not support the video element.
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں جرمنی کی وزیر داخلہ کا کہنا تھا، ''2015ء میں مہاجرین کی آمد کے مقابلے میں ہم نے بہت سی چیزیں بہت زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیں۔‘‘ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''شہریوں کی ایک حیران کن بڑی تعداد نے‘‘ لوگوں کو اپنے ہاں جگہ دینے میں حکومتی کوششوں میں مدد دی۔
انہوں نے کہا کہ تمام یورپی ریاستوں کی طرف سے ''فوری اور افسر شاہی طریقوں سے ہٹ کر‘ یوکرین سے آنے والے مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے کی صلاحیت ایک ''تاریخی کامیابی‘‘ ہے۔ نینسی فیزر کے بقول، ''یہ ایک عظیم کامیابی تھی اور کُلی اتفاق کے ساتھ۔ اسے حاصل کرنا مشکل امر تھا۔‘‘
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
جرمن وزیر کے مطابق جرمنی اور یورپ دیگر علاقوں سے بھی مہاجرین کی مدد کے لیے مزید اقدامات کر رہے ہیں: ''ہم اپنی انسانی بنیادوں پر ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں ایسے اقدامات کے سلسلے میں تمام نئے آنے والوں کو انٹیگریشن کورسز یا جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے تربیتی کورسز تک رسائی دینا شامل ہے۔ ان کے بقول اس کا مقصد جرمنی کی اقدار اور زبان کی اہمیت ان لوگوں پر بھی اجاگر کرنا ہے جو یہاں محدود وقت کے لیے ٹھہرتے ہیں۔ جرمن وزیر کے مطابق یہ پہلے ہی ان افغان شہریوں کے ساتھ ہو چکا ہے جو افغانستان چھوڑ کر جرمنی پہنچے۔