جرمنی 2016ء کے بعد سے اب تک ایسے درجنوں افراد کو ملک بدر کر چکا ہے جن پر دہشت گردانہ حملہ کرنے کی صلاحیت یا خواہش رکھنے کا شبہ تھا۔ یہ اعداد وشمار ایک پارلیمانی انکوائری کے جواب میں جاری کیے گئے۔
اشتہار
جرمن میگزین 'ڈیر اشپیگل‘ کے مطابق 2016ء میں برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے ٹرک حملے کے بعد سے جرمنی 90 ایسے افراد کو ملک بدر کر چکا ہے جن پر دہشت گردانہ حملہ کرنے کی خواہش یا صلاحیت موجود ہونے کا شبہ تھا۔ اشپیگل کے مطابق حکومت کی طرف سے یہ معلومات سیاسی جماعت ایف ڈی پی کی طرف سے ایک پارلیمانی انکوائری کے جواب میں فراہم کی گئیں۔
اس طرح کے افراد کی شناخت عام طور پر جرمنی کے انٹیلیجنس حکام کی جانب سے کی جاتی ہے جن پر ممکنہ دہشت گردی کا شبہ ہو یا وہ عوامی سلامتی کے لیے خطرے کا سبب بن سکتے ہوں۔
جرمنی کی کاروبار دوست جماعت ایف ڈی پی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ جن افراد کو ملک بدر کیا گیا ان میں سے 40 فیصد کا تعلق شام سے جبکہ دیگر عراقی، ترک اور روسی شہری تھے۔
اس وقت بھی وفاقی حکومت 225 مشتبہ افراد کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جنہیں ملکی بدری یا دیگر قانونی اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فروری 2018ء میں جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ایف ڈی پی کی درخواست پر وفاقی حکومت نے بتایا تھا کہ جرمنی میں 745 ایسے افراد موجود ہیں جو ممکنہ طور پر دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں۔
برلن، کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھ دوڑا
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
اس واققعے کے بعد پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے
تصویر: Google Earth
امددی ٹیمیں فوری طور پر جائے حادثہ پہنچ گئیں اور زخمیوں کو طبی مراکز منتقل کر دیا گیا۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس نے علاقے میں موجود لوگوں سے کہا ہے کہ وہ فیس بک پر اپنے محفوظ ہونے کا بتا دیں، تاکہ ان کے پیاروں کو معلوم ہو کہ وہ خیریت سے ہیں۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
پولیس کی جانب سے اس حملے کی بابت اطلاعات ٹوئٹر پیغامات کی صورت میں دی جا رہی ہیں۔ پولیس نے عوام سے کہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق ویڈیوز کو شیئر کرنے سے اجتناب برتا جائے، کیوں کہ اس سے مختلف افراد کی ’پرائیویسی‘ پر حرف آ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سکیورٹی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں، تاہم انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا یہ واقعہ کوئی حملہ تھا یا نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
جرمن وزیر برائے انصاف ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات دہشت گردی کے مقدمات کرنے والے پراسیکیوٹرز کے سپرد کر دی گئیں ہیں۔ ماس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک کی چڑھائی کو ’لرزہ خیز‘ واقعہ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
برلن پولیس کے مطابق کرسمس مارکیٹ میں لگے اسٹالوں پر چڑھ دوڑنے والے ٹرک کا ایک مسافر موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ایک دوسرے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ تفتیش کی جا رہی ہے کہ آیا حراست میں لیا جانے والا شخص واقعی ٹرک کا ڈرائیور تھا یا نہیں۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
جرمن دارالحکومت برلن میں پیر اُنیس دسمبر کی شام ایک ٹرک نے ایک کرسمس مارکیٹ روند ڈالی۔ اس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
پولیس نے وسطی برلن کی بُوڈا پیسٹر سٹریٹ اور اُس کے نواحی علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ سرِ دست یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی، کوئی حادثہ تھا یا حملہ آور کے کچھ اور محرکات تھے۔
تصویر: REUTERS/F. Bensch
ابھی پولیس کی جانب سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم عوام سے اپنے گھروں میں رہنے، پُر سکون رہنے اور قیاس آرائیوں سے گریز کرنے کے لیے کہا ہے۔
تصویر: REUTERS/P. Kopczynski
جرمن دارالحکومت برلن کے مرکزی علاقے میں واقع قیصر ولہیلم یادگاری چرچ کے قریب واقع اس کرسمس مارکیٹ کا ہزاروں لوگ رخ کرتے ہیں۔