جرمنی کے جنوب مغربی شہر وائن گارٹن میں جاری وائن فیسٹیول کے دوران غصیلی بھڑیں شرکاء پر حملہ آور ہو گئیں۔ وائن کے دلدادہ تیرہ شرکا کو بھڑوں کے کاٹنے کے سبب ہسپتال لے جانا پڑا۔
اشتہار
جرمنی کے وائن پیدا کرنے والے کئی شہروں میں ان دنوں وائن فیسٹیول منعقد کیے جاتے ہیں۔ وائن گارٹن نامی ایک قصبے میں بھی سینکڑوں افراد ایسے ہی ایک فیسٹیول میں شریک ہو کر وائن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
تاہم اس علاقے کی بھڑوں کو غالبا یہ جشن پسند نہیں آیا اور ان سرخ بھڑوں نے شرکا پر حملہ کر دیا۔ یوں وائن کے دلدادہ اٹھارہ افراد زخمی ہو گئے اور ان میں سے تیرہ کو تو ہسپتال منتقل کرنا پڑ گیا۔
وائن گارٹن نامی یہ قصبہ جرمن شہر کارلس روہے کے قریب واقع ہے۔ اس واقعے کے بعد ہنگامی امدادی ٹیمیں فوری طور فیسٹیول کے مقام پر پہنچیں۔ مقامی حکام کے مطابق تیرہ افراد شدید زخمی ہوئے ہیں تاہم ان میں سے کسی شخص کی حالت خطرے میں نہیں ہے۔
فیسٹیول میں شریک افراد کے مطابق بھڑوں کی بڑی تعداد حملہ آور ہوئی جس کے بعد فیسٹیول میں بھگدڑ مچ گئی۔ انتظامیہ نے فوری طور پر ریسکیو ٹیموں کو مطلع کر دیا۔ جس کے بعد دو ریسکیو ٹیمیں جائے واقعہ تک پہنچ گئیں جن میں بھڑوں اور شہد کی مکھیوں کے حملوں سے نمٹنے کے ماہرین بھی شامل تھے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمنی میں بھڑوں کو ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار قرار دے کر تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ بھڑوں کے چھتے بھی صرف سرکاری اجازت حاصل کر کے ہی ہٹائے جا سکتے ہیں۔
عام طور پر بھڑوں کا حملہ عام افراد کے لیے جان لیوا نہیں ہوتا، تاہم الرجی کے مریض افراد کے لیے بھڑیں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
مائیکرو چِپس والی شہد کی مکھیاں
آسٹریلوی ماہرین نے 10 ہزار شہد کی مکھیوں پر مائیکرو چِپس لگائی ہیں۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تیزی سے کم ہوتی آبادی کی وجہ جاننا ہے۔
تصویر: CSIRO
بھاری بھرکم چپ؟
اس کی شہد کی مکھی کی پشت پر موجود اس چپ کا سائز 2.5 ملی میٹر ہے تاہم اس کا وزن محض 5.4 ملی گرام ہے۔ بظاہر یہ چپ بہت بڑی نظر آتی ہے تاہم آسٹریلوی تحقیقی ادارے CSIRO کے ماہر گیری فِٹ کے مطابق اس چپ کا وزن قریب اس ایک پولن کے ہی قریب ہے جو یہ مکھیاں جمع کرتی ہیں۔
تصویر: CSIRO
ننھی مکھی کی کمر پر سامان
آسٹریلوی ریاست تسمانیہ میں قریب 10 ہزار یورپی شہد کی مکھیوں میں یہ RFID سینسر چپس لگائی گئی ہیں۔ ان چپس کو باندھنے کے لیے ماہرین کو ان مکھیوں کو تھوڑی دیر کے لیے بے ہوش کرنا پڑا۔ برازیل میں بھی ایسا ہی ایک تجربہ چل رہا ہے۔
تصویر: CSIRO
مقصد شہد کی مکھیوں کا معمول جاننا
مکھیوں پر لگی چپس کے علاوہ ان کے چھتوں میں بھی ریسیورز لگائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد ان مکھیوں کے ماحول میں پرواز کے دوران اور چھتے میں گزارے جانے والے وقت کے دوران ان کے معمولات جاننا ہے کہ وہ کچھ کھا رہی ہیں، پولن جمع کر رہی ہیں یا کچھ اور۔
تصویر: CSIRO
بنیادی مسئلہ
اس تحقیق اور دنیا بھر میں اس طرح کی دیگر تحقیق کی بدولت سائنسدان یہ جان سکیں گے کہ شہد کی مکھیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی وجوہات کیا ہیں تاکہ ان کا خاتمہ کیا جا سکے۔ گیری فِٹ کے مطابق ان کے طریقہ کار سے یہ فوری طور پر جانا جا سکتا ہے کہ مکھیاں مختلف چیزوں پر کیسا ردعمل دکھاتی ہیں۔
تصویر: CSIRO
زندگی کو لاحق خطرات
حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی کالونیاں بہت تیزی سے ختم ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ ’واروا مائٹس‘ نامی ننھی جوؤں کےعلاوہ فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیمیائی ادویات بھی ہیں۔ خیال رہے کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے 70 فیصد پودوں کی پولینیشن کرتی ہیں۔ مکھیوں کے خاتمے سے خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔