جرمنی: پانچ دن تک خوف پھیلانے والا زہریلا کوبرا پکڑا گیا
31 اگست 2019
جرمن شہر ہیرنے کے باسیوں کو قریب ایک ہفتے تک خوف میں مبتلا رکھنے والے زہریلے کوبرا سانپ کو پکڑ لیا گیا۔ جرمنی میں عام طور کوبرا سانپ نہیں پائے جاتے۔
اشتہار
سانپ پکڑنے کے ماہر رونالڈ بائنر جب کوبرا کو زندہ پکڑ کر پلاسٹک کے ڈبے میں لے کر باہر آئے تو مقامیوں نے تالیاں بجا کر ان کا اسقتبال کیا۔ زہریلے کوبرا کو آخر کار فائر برگیڈ کی گاڑی میں رکھ کر لے جایا گیا تو سب نے سکھ کا سانس لیا جن میں رہائشی بھی شامل تھے، فائر بریگیڈ کا عملہ اور صحافی بھی۔
سوا پانچ فٹ طویل کوبرا سانپ وفاقی جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہیرنے میں قریب ایک ہفتہ قبل دیکھا گیا تھا۔ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں میں موجود سانپ کی واحد تصویر کولن بلیک نے کھینچی تھی۔ گزشتہ اتوار کے روز بلیک اور اس کی پارٹنر لیزا ماری نے اس زہریلے سانپ کو دیکھتے ہی فائر بریگیڈ کے عملے کو اطلاع دی لیکن اس دوران کوبرا وہاں سے غائب ہو گیا تھا۔
کوبرا سانپ کے فرار ہونے اور اس کی تلاش کی ناکام کوششوں کے دوران نہ صرف چار فلیٹس پر مشتمل عمارت کے مکین بلکہ شہر کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی خوفزدہ ہو گئے تھے۔ رہائشی عمارت اور اس کے ارد گرد کے رہنے والے تیس افراد کو دیگر جگہوں پر منتقل کر دیا گیا اور اس جگہ کو عام افراد کی آمد و رفت کے لیے بھی بند کر دیا گیا تھا۔
امدادی ٹیموں نے کوبرا سانپ ڈھونڈنے کے لیے تمام جتن کیے لیکن وہ نہ ملا اور پھر رواں ہفتے جمعرات کے روز عمارت کے تہہ خانے کو مکمل سیل کر کے رہائشیوں کو واپس گھر آنے کی اجازت دے دی گئی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ سانپ تہہ خانے ہی میں کہیں چھپا ہوا ہے لیکن پانی اور خوراک نہ ملنے پر وہیں مر جائے گا۔
عملے کی بات پر یقین کرتے ہوئے کچھ لوگ اپنے فلیٹس میں لوٹ بھی آئے۔ لیکن ماہرین کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور کہانی میں ایک اور موڑ آیا۔
ہوا یہ کہ ایک شہری نے میئر سے شکایت کی کہ رہائشی عمارتوں کے ارد گرد بہت زیادہ گھاس ہے جس میں سانپ چھپ سکتا ہے۔ میئر کے احکامات کے بعد گھاس کاٹنے کی بھاری مشینوں کے ساتھ کٹائی شروع کر دی گئی۔
گھاس کاٹنے والے گاڑی سے پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ کے سبب تہہ خانے کے باہر کنکریٹ کی ایک سلیب کے نیچے چھپا سانپ گھبرا کر باہر نکل آیا۔ فوری طور پر سانپ پکڑنے کے لیے ماہرین کو طلب کر لیا گیا اور یوں آخر کار کوبرا زندہ حالت میں پکڑا گیا۔
گاڑی سے کوبرا سانپ برآمد
01:08
جرمنی میں کوبرا؟
جرمنی میں پائے جانے والے سانپوں کی اقسام میں سے صرف دو زہریلی اقسام ہیں۔ کوبرا سانپ جرمنی میں نہیں پایا جاتا۔
شہری انتظامیہ کے مطابق یہ ایشیائی کوبرا ممکنہ طور پر سانپ پالنے کے شوقین ایک شخص کے پاس تھا جو اسے غیر قانونی طور پر جرمنی لایا تھا۔ تاہم اس شخص نے اس بات سے انکار کیا۔ انتظامیہ نے حفاظتی طور پر اس کے پاس موجود بیس سانپ قبضے میں لے لیے ہیں۔
شہری کتنے خوفزدہ تھے؟
ایشائی کوبرا سانپ کی تصویر دیکھتے ہی انتظامیہ نے حفاظتی اقدامات شروع کر دیے اور مذکورہ رہائشی عمارت سمیت ارد گرد رہنے والے دیگر شہریوں کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت کی۔
خبر سامنے آنے کے بعد سے لے کر سانپ پکڑے جانے تک علاقے میں خوف پایا جاتا تھا۔ انتظامیہ نے بھی زہر کش ادویات قریبی ہسپتال منتقل کر دی تھیں۔
بہر حال جمعے کے روز کوبرا کے پکڑے جانے کے بعد خوف کا خاتمہ ہوا اور تب سے مذکورہ رہائشی عمارت شہریوں کی توجہ کا مرکز بھی بنی ہوئی ہے۔
ش ح / ع ح (ڈی پی اے)
دس زہریلے ترین جانور
دنیا میں زہریلے جانورں کی کمی نہیں۔ بہت سے زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج دریافت ہو چکا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے جانوروں کی بھی ہے، جن کا شکار ہونے پر انسان کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ دس زہریلے ترین جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: Imago/blickwinkel
پانی میں تیرتا ہوا خطرہ
اّسی سینٹی میٹر طویل یہ دریائی سانپ دنیا کے تقریباً تمام دریاؤں میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کا بظاہر دشمن کوئی نہیں۔ تاہم اس کے زہر کی تھوڑی سے مقدار بھی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم جارحانہ نہیں ہوتی اور یہ ساحلوں کے دور گہرے پانیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot/BCI/J. Visser
سی ویسپ یا باکس جیلی فش
آسٹریلیا کے پانیوں میں سی ویسپ جسے باکس جیلی فش بھی کہا جاتا ہے، بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ جیلی فش کی یہ قسم استوائی اور نیم مرطوب سمندرں میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کی چھتری نما ٹانگیں بیس سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ اس کا زہر دل، اعصبای نظام اور جلد کے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تصویر: AP
منڈارینا بِھڑ
منڈارینا بِھڑ کو دیو ہیکل ایشیئن بھڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے بڑے ڈنک والی بھڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کے بھنورے بھی کبھی کبھار اس کی غذا بنتے ہیں۔ اس کےتقریباً چھ سینٹی میٹر لمبے ڈنک کاٹنے کی صورت میں انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے زہر سے گوشت جھڑنا شروع ہو سکتا ہے جبکہ مزید بھڑیں بھی اس جانب متوجہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرخ پشت والی مکڑی
یہ زہریلی ترین مکڑی ہے اور کسی مکڑے سے زیادہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے زہر سے جسم میں شدید درد ہوتا ہے اور پٹھے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نظام تنفس تک پہنچنے کی صورت میں اس زہر سے موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مکڑی عام طور پر آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے تاہم اب جاپان میں بھی اس کے پائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Getty Images
ڈیتھ اسٹالکر یا زرد بچھو
زرد بچھو شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی وسطٰی میں پایا جاتا ہے۔ دس سینٹی میٹر طویل یہ کیڑا پتھروں والے خشک علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ پتھروں کے نیچے اور دیواروں میں پڑنے والی دڑاڑیں اس کا گھر ہیں۔ یہ انتہائی پھرتیلا اور زہر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا زہر اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تصویر: cc-by/Ester Inbar
گولڈن مینڈک
اس چھوٹی سی مخلوق کو دنیا کا زہریلا ترین مینڈک قرار دیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں کوکو انڈیانر نسل کے افراد اس مینڈک کا زہر شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
اصلی سنگ ماہی
استوائی اور نیم مرطوب سمندر اس مچھلی کا گھر ہیں۔ یہ بحیرہ احمر سے لے آسٹریلیا تک کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کے جسم پر موجود کانٹے نما کھال میں زہر موجود ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ان کانٹوں کو چھو لے تو شدید درد ہوتا ہے اور اچانک سانس بھی رک سکتی ہے۔
تصویر: Imago/oceans-image
بلیو رنگڈ اوکٹوپس (ہشت پا)
اکٹوپس کی یہ قسم بیس سینٹی میٹر طویل ہے۔ اس کی جلد پر موجود نیلے دائرے کسی خطرے کی صورت میں چمکنے لگتے ہیں۔ اس کا زہر بہت تیزی سے جسم میں سرائیت کرتا ہے، ذہن تو پوری طرح سے چاق و چوبند رہتا ہے لیکن جسم حرکت کے قابل نہیں رہتا۔
تصویر: imago/OceanPhoto
جیوگرافر کون (گھونگا)
یہ استوائی سمندروں میں پائی جانے والی گھونگے کی ایک قسم ہے۔ پندرہ سیٹی میٹر طویل یہ جانور اپنے جسم پر بننے نقش و نگار کی وجہ سے یہ بہت ہی قابل دید ہوتا ہے۔ تاہم اس کا حملہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے زہر کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA
زوان تھاریا (مرجان)
یہ سمندرکی تہہ میں پائی جانے والے جانور مرجان یا کورال کی ہی ایک قسم ہے۔ بظاہر پودا دکھائی دینے والی یہ مخلوق ایک جانور ہے۔ یہ تقریباً تمام ہی مچھلی گھروں میں موجود ہوتی ہے۔ یہ جانور بھی انتہائی زہریلا ہے اور اس کے کاٹے کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔