جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی اپیلیں بھی مسترد، آخر کیوں؟
شمشیر حیدر
19 جنوری 2018
جرمن حکام پاکستانی تارکین وطن کی پناہ کی زیادہ تر درخواستیں ابتدائی فیصلوں ہی میں مسترد کر دیتے ہیں۔ تاہم سن 2017 میں ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں میں بھی پاکستانی شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب انتہائی کم رہا ہے۔
اشتہار
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے رواں ہفتے سن 2017 میں جرمنی میں تارکین وطن اور مہاجرین کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ سن 2017 کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی کم رہی۔
اعداد و شمار کے مطابق اس پورے سال میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چھیاسی ہزار مزید تارکین وطن جرمنی آئے۔ جب کہ مجموعی طور پر پناہ کے نئے درخواست گزاروں کی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار رہی جن میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
ابتدائی فیصلوں میں پاکستانیوں کی درخواستیں مسترد
گزشتہ برسوں کی طرح سن 2017 میں بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب نہایت کم رہا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بیس ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے جن میں سے محض چار فیصد کو پناہ دی گئی جب کہ انیس ہزار سے زائد (قریب چھیانوے فیصد) پاکستانیوں کو پناہ کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک ہیں، ٹاپ ٹین
اقوام متحدہ کے مطابق دسمبر 2017ء تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 258 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
۱۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 کے اواخر تک قریب ایک کروڑ ستر لاکھ (17 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
۲۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو ایک کروڑ تیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی نوے فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
۳۔ روس
تیسرے نمبر پر روس ہے جس کے ایک ملین سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2017 تک ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد چوالیس لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
۵۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے تیار کردہ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچہتر لاکھ سے زائد بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔
تصویر: DW
۶۔ شام
خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے قریب ستر لاکھ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں چھبیسویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
۷۔ پاکستان
ساٹھ لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
۸۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے اختتام تک 5.9 ملین یوکرائینی شہری بیرون ملک آباد ہیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
۹۔ فلپائن
ستاون لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائینی شہریوں کی تعداد تیس لاکھ تھی۔ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائینی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
۱۰۔ برطانیہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں برطانیہ دسویں نمبر پر ہے جس کے قریب پچاس لاکھ شہری دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 8.8 ملین بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Nichols
۱۱۔ افغانستان
آخر میں پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اڑتالیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری وطن سے باہر مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک بائیس لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔
تصویر: DW/Omid Deedar
11 تصاویر1 | 11
اس کے مقابلے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب چوالیس فیصد رہا اور بانوے فیصد سے زائد شامی مہاجرین کو بھی جرمنی میں پناہ دے دی گئی۔
فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں
جرمنی میں ابتدائی فیصلے میں پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اس کے خلاف اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔
بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017 میں حکام نے 1422 پاکستانی شہریوں کی اپیل پر ان کی درخواستوں پر نظر ثانی کی۔
نظر ثانی کے بعد ان میں سے صرف ایک پاکستانی شہری کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ کا حقدار قرار دیا گیا جب کہ انتالیس پاکستانیوں کو دیگر درجوں میں عارضی طور پر جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں اپیلوں میں بھی پاکستانی تارکین وطن کی کامیاب درخواستوں کی شرح قریب ساڑھے پانچ فیصد رہی۔
گزشتہ برس کے مقابلے میں سن 2016 کے پورے سال کے دوران ایک ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر نظر ثانی کی گئی تھی۔
کس ملک کے کتنے پناہ گزین رضاکارانہ وطن واپس لوٹے؟
بین الاقوامی ادارہ مہاجرت تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی اور اپنے ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے رواں برس AVRR نامی اس منصوبے سے کن ممالک کے شہری زیادہ مستفید ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۱۔ البانیا
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے رضاکارانہ وطن واپسی اور آباد کاری کے منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی میں البانیا کے 4421 شہری وطن واپس لوٹے۔ سن 2016 میں اس منصوبے سے مستفید ہونے والے البانیا کے شہریوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: DW/A. Muka
۲۔ عراق
شورش زدہ ملک عراق کے شہریوں میں رضاکارانہ وطن واپسی کا رجحان گزشتہ برس بھی موجود تھا جب قریب تیرہ ہزار عراقی شہری آئی او ایم کے اس منصوبے کے تحت واپس عراق چلے گئے تھے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چار ہزار عراقی اس منصوبے سے مستفید ہوئے۔
تصویر: DW/B. Svensson
۳۔ ایتھوپیا
افریقی ملک ایتھوپیا کے تئیس سو شہری آئی او ایم کے رضاکارانہ وطن واپسی کے اس پروگرام میں حصہ لے کر اپنے وطن واپس گئے۔ گزشتہ پورے برس کے دوران اس منصوبے کے تحت سات ہزار ایتھوپین تارکین وطن اپنے ملک واپس لوٹے تھے۔
تصویر: IOM Ethiopia
۴۔ افغانستان
گزشتہ برس آئی او ایم کے اس منصوبے میں حصہ لینے والے افغان شہریوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد رہی تھی۔ تاہم اس برس اس رجحان میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب اکیس سو افغان شہری رضاکارانہ طور پر وطن لوٹ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۵۔ سربیا
یورپی ملک سربیا کے مختلف ملکوں میں موجود تارکین وطن میں سے قریب سترہ سو افراد بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے تعاون سے واپس اپنے ملک لوٹے۔ گزشتہ برس ایسے سرب باشندوں کی تعداد قریب سات ہزار رہی تھی۔
تصویر: privat
۶۔ مقدونیا
مشرقی یورپ ہی کے ایک اور ملک مقدونیا کے پانچ ہزار شہریوں نے گزشتہ برس اس منصوبے سے استفادہ کیا تھا تاہم رواں برس کی پہلی ششماہی میں واپس وطن لوٹنے والے مقدونیا کے شہریوں کی تعداد پندرہ سو رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۷۔ پاکستان
پاکستانی تارکین وطن میں رضاکارانہ وطن واپسی کے رجحان میں اس برس اضافہ ہوا ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب پندرہ سو پاکستانی رضاکارانہ وطن واپسی کے اس منصوبے سے مستفید ہوئے جب کہ گزشتہ پورے برس میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد 1278 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۸۔ سینیگال
مغربی افریقہ کے ملک سینگال سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تیرہ سو تارکین وطن بین الاقوامی ادارہ برائےمہاجرت کے شروع کردہ اس منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/L. Gnago
۹۔ یوکرائن
یورپی ملک یوکرائن کے ہمسایہ ملک روس سے کشیدہ تعلقات کے باعث یوکرائنی باشندوں میں یورپ کی جانب مہاجرت کا رجحان نوٹ کیا گیا تھا۔ تاہم اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران قریب تیرہ سو یوکرائنی رضاکارانہ طور پر واپس یوکرائن چلے گئے۔
تصویر: DW
۱۰۔ روس
آئی او ایم کے شروع کردہ رضاکارانہ وطن واپسی اور آبادکاری کے اس منصوبے سے مستفید ہونے والے روسی تارکین وطن کی تعداد اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران گیارہ سو سے زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران، یعنی سن 2013 کے اوائل سے سن 2017 کے آخر تک، مجموعی طور پر قریب پینتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں دیں۔ ان برسوں کے دوران پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح بتدریج کم ہوئی ہے۔
جرمن حکام عام طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کو ’معاشی بنیادوں پر ترک وطن‘ کرنے والے افراد قرار دے کر ابتدائی فیصلوں میں ہی درخواستیں رد کر دیتے ہیں۔ جرمن قوانین کے مطابق ایسے فیصلوں کے خلاف انتظامی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس بھی ان ہزاروں پاکستانی شہریوں نے عدالتوں میں اپیلیں دائر کیں۔
عدالت اگر یہ سمجھے کہ حکام نے درست فیصلہ نہیں کیا اور نئے شواہد کی روشنی میں ان درخواستوں کو از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تو ہی بی اے ایم ایف کے حکام نظرثانی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی 1422 پاکستانیوں کی درخواستوں پر نظر ثانی عدالتی احکام کے بعد ہی کی گئی۔ لیکن شماریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘