پاکستانی تارک وطن پر لشکر طیبہ کی رکنیت کا شبہ، فرد جرم عائد
صائمہ حیدر
21 مارچ 2018
وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق ایک چوبیس سالہ پاکستانی تارک وطن پر کالعدم شدت پسند تنظیم ’لشکر طیبہ‘ سے منسلک ہونے کے تناظر میں جرمن شہر ڈسلڈورف کی علاقائی عدالت میں باقاعدہ طور پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
اشتہار
جرمن وفاقی پراسیکیوٹر آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وقاص اے نام کا یہ ملزم اور پاکستانی تارک وطن اپنے ملک میں اس عسکریت پسند تنظیم کا مشتبہ رکن رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پاکستانی مہاجر سن 2010 میں پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں اپنے والد کی خواہش پر شدت پسند گروہ ’لشکر طیبہ‘ میں شامل ہوا تھا۔ ابتداء میں ملزم نے محض مذکورہ دہشت گرد تنظیم کے مذہبی اجتماعات میں جانا شروع کیا تاہم بعد ازاں ایک تربیتی مرکز میں اسے گروپ کی جانب سے بندوق چلانے اور دیگر ہتھیاروں کے استعمال کی ٹریننگ بھی دی گئی۔
دفتر استغاثہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ سن 2014 کے اواخر میں وقاص اے نے لشکر طیبہ کے لیے بھارت کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے اُس نے پاکستان کے شہر کراچی میں واقع لشکر طیبہ کے ایک سیل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
جرمن پراسیکیوٹر کے مطابق وقاص اے سن 2015 میں لشکر طیبہ کو چھوڑنا چاہتا تھا۔
اسی بنا پر اسے ایک مشترکہ اپارٹمنٹ میں گروپ کے بعض ارکان نے قید میں رکھا اور زدوکوب کیا۔ سن 2015 جنوری کے آخر میں وقاص مبینہ طور پر لشکر طیبہ کے ارکان کی قید سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور واپس اپنے والدین کے پاس گوجرانوالہ چلا گیا۔
جرمن فیڈرل پبلک پراسیکیوٹر نے پریس ریلیز میں مزید کہا ہے کہ گھر واپس آنے کے بعد متعدد بار وقاص کو لشکر طیبہ کی جانب سے دھمکیاں ملیں تب اُس نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مارچ سن 2015 میں پاکستان چھوڑ دیا اور اسی برس اگست میں جرمنی پہنچا۔
لشکر طیبہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سرگرم ايک عسکریت پسند گروہ ہے۔ بھارتی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ لشکر طیبہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں متعدد تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ امریکا نے بھی کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ پاکستان نے لشکر طیبہ پر سن 2002 میں پابندی لگا دی تھی لیکن امریکی حکام کے مطابق یہ تنظیم مختلف تنظیموں کے نام سے اب بھی فعال ہے۔
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔